بس خاک قدم دیجئے تکرار بہت کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بس خاک قدم دیجئے تکرار بہت کی
by عبدالرحمان احسان دہلوی

بس خاک قدم دیجئے تکرار بہت کی
مٹی مری اس خاک نے ہی خوار بہت کی

چڑ مجھ کو تجھے ریجھ کے تکرار بہت کی
خوش رہ کہ خوشامد تری اے یار بہت کی

ہرگز نہ گئی پیش نہ آیا مہ بے مہر
ہر چند کہ زاری پس دیوار بہت کی

لائی کشش دل ہی تمہیں تم نے تو ورنہ
یہاں آنے میں اک عمر تلک عار بہت کی

اس چشم نے دیکھا دل بیمار کو میرے
بیمار نے کل خاطر بیمار بہت کی

ابرو کی تصور میں ہوا قتل مرا دل
پھل کیوں نہ ملے مرد تھا تلوار بہت کی

عشاق میں میں ہی ہدف تیر ہوں اس کا
عظمت ہی یہی خدمت سرکار بہت کی

اس طرح کا بے دید تو غم ہوگا جہاں میں
کی ہم نے بھی ہے دید طرحدار بہت کی

صورت تری آگے ہی بھبوکا تھی ولیکن
زلفوں کے بکھرنے نے دھواندھار بہت کی

یہاں آٹھ پہر جنس سے وفا ہم نے دکھائی
دیکھا نہ خریدار تو ناچار بہت کی

یا رب نہ رہے نام جدائی کہ رہ عشق
آسان تھی پر اس نے ہی دشوار بہت کی

معلوم کوئی دن کو تجھے ہوگی حقیقت
کم اس ترے اقرار کی انکار بہت کی

ہر چند کہ خط سے بھی دھواں شکل ہے اے مہ
پر خط کی نہ رکھنے نے نمودار بہت کی

گھر میں نہ ترے کود سکا رات گئے میں
ہاں اپنی سی تدبیر تو اے یار بہت کی

بہبود کے آثار نہ دیکھے کبھو ہرگز
جس شخص نے اونچی تری دیوار بہت کی

کم ہم سا خریدار بہم پہنچے گا اس کو
کیوں عشق نے جنس غم بسیار بہت کی

بولا سر منصور سر دار پہ احساںؔ
حق ہے کہ سزا وار تھے پندار بہت کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse