بس تمنا ہے عشق مولیٰ میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بس تمنا ہے عشق مولیٰ میں
by ماتم فضل محمد

بس تمنا ہے عشق مولیٰ میں
کہ مروں میں یہی تمنا میں

عشق خوباں نہیں ہے ایسی شے
باندھ کر رکھئے جس کو پڑیا میں

رخ افشاں میں تیرے عالم نور
نم قمر میں ہے نم ثریا میں

ید بیضا کا ہے خیال آتا
دیکھ مہندی ترے کف پا میں

تیرے بیمار ہجر اے محبوب
نہ تو موتی میں ہیں نہ احیا میں

وحدہ لا شریک لہ ہے تو
تجھ سا دنیا میں ہے نہ عقبیٰ میں

تجھ کو کیوں کر کہیں ہم ہرجائی
نور تو جلوہ گر ہے ہر جا میں

کیا کہوں دن کو کس قدر رویا
رات دلبر کو دیکھ رویا میں

عشق لگتے ہی ہو گیا معلوم
حال مجنوں عشق لیلیٰ میں

مرض عشق حسن خوباں کا
مرگ درماں ہے نام حکما میں

حاصل الامر ہم ہوئے بدنام
عشق حسن بتان زیبا میں

رخ یوسف سے رخ مشابہ ہے
لب ہیں ملتے لب مسیحا میں

آب باراں سے گر نہ پائے مدد
خاک پڑ جائے چشم دریا میں

یہ دعا حق سے ہے مرا ماتمؔ
دفن ہو کربلائے معلیٰ میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse