بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا
by ثاقب لکھنوی

بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا
ہنسا تھا جس قدر کبھی زیادہ اس سے رو چکا

نہ ذکر انبساط کر کہ دور عیش ہو چکا
خوشی کی فکر کس لیے وہ دل کہاں جو کھو چکا

یہ خندۂ طرب نما مبارک اہل دہر کو
بہت زمانہ ہو گیا کہ میں ہنسی کو رو چکا

وفا جو زندگی میں تھی وہی ہے بعد مرگ بھی
یہ امتحان رہ گیا وہ امتحان ہو چکا

نہ دم لے اے سرشک غم تجھے قسم ہے عشق کی
فلک کو چھوڑتا ہے کیوں اگر مجھے ڈبو چکا

رہے وہ دل میں مدتوں مگر سنبھل سکا نہ میں
مزاج حسن و عشق کو بہت دنوں سمو چکا

یہ آشیانۂ ستم چمن میں ہو تو خوب ہے
یہ جی میں ہے کہ لے اڑوں قفس تو میرا ہو چکا

خبر نہیں یہ جاگنا ہے زیست تک کہ بعد بھی
جو ساتھ دل رہا یہی تو میں لحد میں سو چکا

نکل کے راہ عشق سے کسی طرف چلوں تو کیا
کہاں سے لاؤں جان و دل یہ دے چکا وہ کھو چکا

یہ تو نہیں کہ وعدۂ وفا کو روندتا پھرے
یہ میں ہوں سرفروش دل جو کہہ دیا وہ ہو چکا

یہ ثاقبؔ ایک سلک ہے خزانہ ہائے راز کی
گہر وہ شاہوار ہیں جنہیں میں یوں پرو چکا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse