بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
by اشرف علی فغاں

بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
دامن وصل بھی آلودۂ مایوسی ہے

ہے کہاں بوئے وفا اس دہن شیریں میں
غنچہ لب تیری زباں ہم نے بہت چوسی ہے

یار گو خون مرا مثل حنا ہو پامال
لیکن اپنے تئیں منظور قدم بوسی ہے

دل مرا خاک شگفتہ ہو چمن میں جا کر
گل میں یہ رنگ کہاں ایک تری بو سی ہے

ایک دن زلف کے منہ پر نہ چڑھی یہ کافر
یاد کاکل کو فقط شیوۂ جاسوسی ہے

وہ سجی تیغ کہ دم میں کرے لاکھوں کو قتل
کون کہتا ہے میاں تیری کمر مو سی ہے

شیخ روتا ہے اسے سن کے برہمن یکسو
پر اثر بس کہ مرا نالۂ ناقوسی ہے

چشم نمناک نے از بسکہ بجھایا اس کو
آتش عشق کہاں دل میں مگر لو سی ہے

اے فغاںؔ عشق کہاں دل میں بقول منتؔ
ہاں یہ سچ ملنے کی خوباں سے تو اک خو سی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse