بستر نرم پر وہ سوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بستر نرم پر وہ سوتا ہے
by میر مظفر حسین ضمیر

بستر نرم پر وہ سوتا ہے
یاں پس خیمہ کوئی روتا ہے

دھیان مژگان آب دار کا آہ
دل میں اک نیشتر چبھوتا ہے

وصل اس کا نہ پائے گا اے دل
کیوں عبث اپنی جان کھوتا ہے

قطرۂ اشک کا اثر دیکھو
کہ کدورت دلوں کی دھوتا ہے

جسے کہتے ہیں یاں سمندر سب
میرے اشکوں کا ایک سوتا ہے

تو تو غرق محیط عشق ہوا
ہاں دلا مجھ کو کیوں ڈبوتا ہے

ہو شب وصل طالب و مطلوب
کیا زمانے میں یوں بھی ہوتا ہے

شعر کہتا ہے اس طرح کے ضمیرؔ
جیسے موتی کوئی پروتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse