بسا اوقات آ جاتے ہیں دامن سے گریباں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بسا اوقات آ جاتے ہیں دامن سے گریباں میں
by سائل دہلوی

بسا اوقات آ جاتے ہیں دامن سے گریباں میں
بہت دیکھے ہیں ایسے جوش اشک چشم گریاں میں

نہیں ہے تاب ضبط غم کسی عاشق کے امکاں میں
دل خوں گشتہ یا دامن میں ہوگا یا گریباں میں

مبارک بادیہ گردو بہار آئی بیاباں میں
نمود رنگ گل ہے ہر سر خار مغیلاں میں

زیادہ خوف رسوائی نہیں ہے سوز پنہاں میں
دھواں ہوتا ہے لیکن کم چراغ زیر داماں میں

ہمیشہ پی کے مے جام و صراحی توڑ دیتا ہوں
نہ میرا دل ترستا ہے نہ فرق آتا ہے ایماں میں

مزہ کیوں کاوش زخم جگر کا آج کم کم ہے
نمک کی کوئی چٹکی رہ گئی ہوگی نمکداں میں

جناب قیس نے دل سے بھلایا دونوں عالم کو
جنوں کے چار حرفوں کا سبق لیکر دبستاں میں

بہار آئی ملا یہ حکم مجھ کو اور بلبل کو
کہ وہ کاٹے قفس میں خاک چھانوں میں بیاباں میں

ترنم ریزیاں بزم سخن میں سن کے سائلؔ کی
گماں ہوتا ہے بلبل کے چہکنے کا گلستاں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse