بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
by مرزا غالب

بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلّف سے
تکلّف بر طرف، تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی

خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی

نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں وہ بھی

نہ اتنا بُرّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بیتابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی

مئے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جامِ واژگوں وہ بھی

مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کہیں ہو جائے جلد اے گردشِ گردونِ دوں، وہ بھی!

نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کو آنے کا
کہ میری خواب بندی کے لیے ہو گا فسوں وہ بھی

مرے دل میں ہے غالبؔ شوقِ وصل و شکوۂ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں، وہ بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse