بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
by بیخود دہلوی

بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
اور پھر آنکھ چراتے ہو یہ کیا کرتے ہو

بعد میرے کوئی مجھ سا نہ ملے گا تم کو
خاک میں کس کو ملاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

ہم تو دیتے نہیں کچھ یہ بھی زبردستی ہے
چھین کر دل لیے جاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

کر چکے بس مجھے پامال عدو کے آگے
کیوں مری خاک اڑاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

چھینٹے پانی کے نہ دو نیند بھری آنکھوں پر
سوتے فتنے کو جگاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

ہو نہ جائے کہیں دامن کا چھڑانا مشکل
مجھ کو دیوانہ بناتے ہو یہ کیا کرتے ہو

محتسب ایک بلانوش ہے اے پیر مغاں
چاٹ پر کس کو لگاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

کام کیا داغ سویدا کا ہمارے دل پر
نقش الفت کو مٹاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

پھر اسی منہ پہ نزاکت کا کرو گے دعویٰ
غیر کے ناز اٹھاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

اس ستم کیش کے چکموں میں نہ آنا بیخودؔ
حال دل کس کو سناتے ہو یہ کیا کرتے ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse