بزم ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
Appearance
بزم ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
ہے یہ تیری ہی صدا غیر کی آواز نہیں
کہہ سکے کون وہ کیا ہے مگر از روئے یقیں
گل نہیں شمع نہیں سرو سرافراز نہیں
دل ہو بے لوث تو کیا وجہ تسلی ہو دروغ
طائر مردہ مگر طعمۂ شہباز نہیں
بلبلوں کا تھا جہاں صحن چمن میں انبوہ
آج چڑیا بھی وہاں زمزمہ پرداز نہیں
بھاگ ویرانۂ دنیا سے کہ اس منزل میں
نزل مہمان بجز مائدۂ آز نہیں
دلبری جذب محبت کا کرشمہ ہے فقط
کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دل کی تسخیر ہے شیریں سخنی پر موقوف
کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دست قدرت نے مجھے آپ بنایا ہے تو پھر
کون سا کام ہے میرا کہ خدا ساز نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |