بزم آخر/جشن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جشن


یہ بادشاہ کی تخت نشینی کی سالگرہ ہے۔ چالیس دن تک اس میں بڑی خوشی ہوتی ہے اور دربار کے لوگوں کو خلعت، انعام اکرام، جوڑے باگے، کھانا دانہ بٹتا ہے۔ رات دن طبلے پر تھاپ، تھئی تھئی ناچ ہوتا ہے۔ تورے بندی

دیکھو دس دن پہلے سے تورے بندی شروع ہوئی۔ کھانے پک رہے ہیں، دن رات دیگیں کھڑک رہی ہیں، رنگ برنگ کے پلاؤ، بریانی، متنجن، مزعفر، زردہ، فرنی، یاقوتی، نان، شیر مال، خمیری روٹی، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، میٹھے سلونے سموسے، کباب، پنیر، قورمہ، سالن، بڑے بڑے لاکھی طباق، رکابی طشتری، پیالوں میں لگا، آم کا مربا، آم کا اچار، ملائی، کھانڈ، لال لال چوگھڑوں میں رکھ، خوانوں میں لگا، پلاؤ، متنجن، بریانی کے طباقوں پر مانڈھے ڈھانک، خوانوں میں لگا، اوپر کھانچی رکھ، کسنے کس، تورے پوش ڈال، بینگھیوں میں بھیج رہے ہیں۔ بائیس خوانوں سے زیادہ، دو سے کم تورہ نہیں ہوتا۔ جیسی جس کی عزت ہے اتنے ہی خوانوں کا تورہ چوب دار گھر بگھر بانٹتے پھرتے ہیں، جھولیاں بھر بھر کے انعام لائے ہیں۔ لو اب تورے بندی ہو چکی۔ مہمان داری

جشن کے چار دن باقی رہ گئے، مہمان داری شروع ہوئی۔ تمام شاہ زادیاں، امیر زادیاں رنگ محل، خاص محل، ہیرا محل، موتی محل میں جمع ہوئیں۔ دونوں وقت اچھے سے اچھے کھانے، پان زردہ، چھالیا، بُن ڈلیاں، الائچیاں؛ صبح کے ناشتے کو حلوا پوری، کچوریاں، مٹھائیاں خوانوں میں کمہاروں کے سر پر رکھے جسولنیاں ایک ایک کو بانٹتی پھرتی ہیں۔ رات دن گانا بجانا، آپس میں چُہل چہچہے ہو رہے ہیں۔ ایلو! دس بیس مل جل کے بیٹھی ہنس بول رہی تھیں؛ ایک کو جو شیطان اچھلا، پیچھے سے آ ایک کالا چتھڑا چپکے سے ایک کے سر پر پھینک دیا۔ وہ ووئی ووئی کرتی اور ساتھ ہی ان کے پاس جتنی بیٹھی تھیں، گد بد گرتی پڑتی چیخیں مارتی بھاگیں؛ ایک چیخم چاخ مچا دی، سارا محل سر پر اٹھا لیا۔ تو دوڑ، میں دوڑ، ارے یہ کیا ہوا ؟ ایک کہتی ہے: “اوپر سے مرداری گری”،دوسری کہتی ہے: “واہ! نہیں بی، رسی([8]) ہے، مجھے گلگلی گلگلی سوجھی تھی۔ اے بی امّا جان! اے بی بھابی جان! اے بی نانی حضرت! اے بی دادی حضرت! اے بی اما چھوچھو! اے بی اما ہپّو! اچھی ذرا دیکھنا! میرے کلیجے پر ہاتھ رکھنا، جس وقت سے یہ نگوڑی میرے سر پر آکر گری ہے میرا کلیجا چار چار ہاتھ اچھل رہا ہے۔ اری سنبل! اری صنوبر!چڑیل، غیبانی، کدھر اڑ گئیں؟

جی!([9])

نکلے تمھارا جی!([10]) دیکھو تو مرداری ہے، تو جلدی سے سونے کا پانی لاؤ، میں اپنی بچی کا پنڈا دھوؤں؛ رسّی ہے تو صدقے کے لیے خوردہ منگاؤں۔ ہے ہے خدا نے میری بچی کی جان پچائی۔ دور پار اگر ایسی ویسی کچھ ہو جاتی تو وہ بندی کس کی ماں کو ماں کہتی۔ لونڈیاں باندیاں لالٹین شمع لے لے کے دوڑیں؛ دور ہی سے کھڑی کہہ رہی ہیں، اے ہے بیوی! خدا جھوٹ نہ بلائے یہ تو رسّی ہے۔ جھٹ مٹی پڑھ پڑھ کے اس طرف پھینکنے لگیں۔ ایک کہتی ہے: بوا یہ تو ایک جائے جم ہو گیا؛ نگوڑا اس جائے سے ہلے نہ جلے۔ دوسری کہتی ہے: واہ! میں نے اسے کیل دیا ہے، کیا مقدور بھلا یہ سرک تو سکے۔ لو بھلا تم ایسی چھتی چھیتا ہو اور ایسا ہی تمھارا چھوچھکا ہے؛ ارے خوجوں کو بلاؤ۔ خوجے لکڑیاں لے لے کے دوڑے، پاس آکے جو دیکھیں کہیں رسی ہے نہ مرداری؛ ایک کالا کپڑا ہے، سب کو اٹھا کے دکھایا کہ واہ حضرت! اچھے میل کا بیل بنایا۔ جن کا یہ کرشمہ تھا، ایک دفعہ ہی قہقہہ مار کے ہنسیں۔ سب کی سب لعنت ملامت کرنے لگیں: “شابش بوا تم کو، در گور تمھاری صورت! تمھارے نزدیک تو ایک ہنسی ہوئی، یہاں چُلّوؤں لہو خشک ہو گیا”۔ رت جگہ

آج بیوی سے لے کر باندی تک سب نے بناؤ سنگار کیے۔

پوشاک: بنارسی زری بونٹی، مقیشی تاروں کی کریب، لاہی پھلکاری، گلشن، بابرلیٹ، آب رواں، شبنم کے دوپٹے۔ زربفت، کمخاب، گُلبدن، مشروع، اطلس، گورنٹ، چیولی، رادھا نگری کی تہ پوشیاں۔([11])

مصالحہ: ٹھپّا، گوکھرو، کِرن، طُرہ، کھجور چھڑی، لہر، بیج بیل، چھڑیاں، بند روم کا جال، چنبیلی کا جال، ماہی پشت کا جال، چین، مُرمرے کی توئی، کیڑے کے پر کی توئی، موتیوں کی توئی، سلمے ستارے کی توئی، پکا گوکھرو، ننی جان، چمپا، پیمک، لیس، ولایتی توئی ٹکی ہوئی۔

رنگ: گل انار، نارنجی، گیندئی، پستئی، سردئی، فالسائی، عنّابی، کاکریزی، سُرمئی، اودا، نافرمانی، گل شفتالو، سیبی، فاختائی، کوکئی، آبی، بسنتی، دھانی، کافوری، گلابی، گُڑھلی، بادامی، شربتی؛ رنگ برنگ کے جوڑے پہنے ہوئے۔

گہنے: ٹیکا، جھومر، سراسری، نتھ، کیل، پتے، بالیاں، بالے، ہالے، کرن پھول، جھمکے، کھٹکے، جھپکے کے بالے، بجلی کے بالے، چھڑے، مگر، چودانیاں، چاند، گلوبند، چنپا کلی، جُگنی، گجرے کا توڑا، موتیا کا توڑا، چھلوں کا توڑا، کنٹھی، ٹیپ، چھلّا، دو لڑی، ست لڑا، دُھگدھگی، ہیکل، چندن ہار، کیری، زنجیر، جوشن، نونگے، اکّے، نورتن، بھج بند، مٹھیاں، پہونچیاں، کنگن، موتی پاک، حباب، چوہے دنتیاں، پٹڑیاں، نوگریاں، لچھے، چوڑیاں، جہاں گیریاں، کڑے، انگوٹھیاں، چھلے، آرسی، توڑے، لچھے، کڑے، جھانجن، چوڑیاں، پازیب، چوراسی، چٹکی چھلّے؛ سر سے پاوں تک سونے موتیوں میں لدی ہوئیں۔

جوتیاں: گھیتلی، اَنی دار، کفش، زیر پائی، کف پائی، سلیم شاہی؛ پاؤں میں چھم چھم کرتیں ملکۂ دوراں کے پاس حاضر ہوئیں؛ مُجرا کیا، اپنے اپنے قرینے سے بیٹھ گئیں۔ ملکۂ دوراں نِک سے سُک تک بناؤ سنگار کیے، سونے میں پیلی، موتیوں میں سفید اپنی مسند پر بیٹھی ہیں؛ آگے سٹک لگی ہوئی ہے۔ خواجہ سرائے، نوکریں چاکریں، لونڈیاں باندیاں ہاتھ باندھے کھڑی ہوئی ہیں۔ توشہ خانے والیاں جوڑوں کی کشتیاں لے کر حاضر ہوئیں۔ ملکۂ دوراں اپنے ہاتھ سے ایک ایک کو جوڑے دیتی ہیں؛ سب سر و قد ہو ہو کر جوڑے لیتی ہیں، آداب بجا لاتی ہیں، نذریں دیتی ہیں۔ بس جوڑے بٹ چکے، نذریں ہو چکیں، اب دال بھیگنے کا وقت آیا۔

یہ جشن کی رات کا ایک شگون ہے۔ بادشاہ کی بیوی اپنے ہاتھ سے دال کی سات لبیں بھر کر پہلے لگن میں ڈالیں اور بادشاہ اپنے ہاتھ سے بڑے پہلے کڑھائی میں ڈالیں۔

لو اب ملکۂ دوراں دال بھگونے چلیں؛ مبارک باد کی نوبت نقارچنیں بجانے لگیں۔ آگے آگے روشن چوکی والیاں روشن چوکی، تاشے باجے والیاں تاشا باجا بجاتی؛ حبشنیاں، ترکنیاں، قِلماقنیاں، اُردا بیگنیاں، خواجہ سرائے، جسولنیاں اور شاہ زادیاں، بیگماتیں، حرم، سُریت، ناموس، چپی والیاں، گائنیں، امیر زادیاں سب اپنے اپنے قرینے اور قاعدے سے ملکۂ دوراں کے تام جھام کے ساتھ ساتھ چلیں۔ رنگ محل میں ملکۂ دوراں کی سواری آئی۔ دیکھو! ڈھیر سی مونگ کی دال چنی پھٹکی اور قلعی دار بڑے بڑے لگن رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے ملکۂ دوراں نے دال کی سات لبیں بھر کر لگن میں ڈالیں، پھر خاصے والیوں نے سب دال لگنوں میں ڈال دی، اوپر سے پانی ڈالا۔ سب نے کھڑے ہو کر مجرا کیا، مبارک باد دی، شادیانے بجنے لگے۔ لو وہ آدھی رات کی نوبت بجنی شروع ہوئی۔ خاصے والیوں نے جلدی جلدی دال دھو دھلا، پیٹھی پیس پسا تیار کر کڑھائیاں چڑھا دیں۔ ملکۂ دوراں نے اپنے ہاتھ سے سات بڑے بنائے۔ ایلو! وہ بادشاہ ہوادار میں سوار باجے گاجے سے آئے۔ وہی ساتوں بڑے چمچے میں لے کر بادشاہ نے کڑھائی میں ڈالے۔ سب کھڑے ہو گئے، چاروں طرف سے مجرا مبارک باد ہونے لگی۔ روشن چوکی، نوبت، تاشا باجا بجنے لگا۔ بادشاہ اور ملکۂ دوراں سوار ہوئیں۔ سب اسی طرح سواری کے ساتھ ساتھ بیٹھک میں آئے۔ فرّاشیوں نے ایک ستھری چوکی بچھائی، اس پر اجلا اجلا بُراق سا بچھونا کیا، دو کوری ٹھلیوں میں شربت بھرا، ان پر دو بدھنیاں دودھ کی بھر کر رکھیں، کلاوے اور پھولوں کے سہرے ان کے گلے میں باندھے، دو پان کے بیڑے بدھنیوں کی ٹونٹی میں رکھے۔ اس کو جیگڑ کہتے ہیں، یہ بادشاہ کی سلامتی کی بھری جاتی ہے۔ لو اب پچھلا پہر ہوا، خاصے والیوں نے بڑے، گلگلے، کھنکڑیاں، تل تلا، اللہ میاں کا رحم، کچے چاول پیس، کھانڈ ملا، بڑے بڑے پیڑے بنا، قابوں میں لگا، کشمیرنوں، کہاریوں کے سر پر خوان رکھوا جیگڑ کے پاس لا کر چن دیے۔ بادشاہ نے کھڑے ہو کر نیاز دی۔ پکوان سب کو بٹ گیا؛ رت جگا ہو چکا، دربار کی تیاری ہونے لگی۔

وہ بادشاہی توپ صبح کی چلی، دھائیں! بادشاہ حمام میں گئے، حمام کر کے پوشاک بدلی اور توشے خانے، جواہر خانے والیاں پوشاک اور جواہر لے کر حاضر ہوئیں۔ تاشا باجا، روشن چوکی، نوبت خانے والیاں مبارک باد کا باجا بجانے لگیں۔ دیکھو! نیچے قبا اوپر چار قب پہنا، سر پر دستار، دستار پر گوشوارہ، جیغہ، سرپینچ، تاج شاہی رکھا، بڑے بڑے موتیوں کا طرّہ لٹکایا، گلے میں موتیوں کا کنٹھا اور ایک موتی مالا ایک سو ایک دانے کی جن میں ایک ایک دانہ زمرد کا اور ایک ایک موتی کا ہے اور دس دس دانوں کے بعد یاقوت کی ہڑیں لگی ہوئی ہیں، بیچ میں یاقوت کی بڑی تختی ہے۔ دوسری موتی مالا نرے موتیوں کی، زمرد کی ہڑیں، بیچ میں یاقوت کی بڑی تختی پہن کر پھر ہیروں کا ہار پہنا۔ بازوؤں پر ہیروں کے بھج بند اور نورتن باندھے، ہاتھوں میں سمرنیں، دائیں میں چار بائیں میں تین پہنیں۔ دو سُمرنیں دو دو موتیوں کی، دو ایک ایک موتیوں کی لڑی کی، دو زمرد کی ہیں؛ ساتویں سمرن میں چار بہت بڑے بڑے موتی اور دو زمرد کے بڑے دانے، بیچ میں ایک لعل ہے، یہ سمرن دائیں ہاتھ میں پہنی۔ اب پوشاک اور جواہر پہن چکے، اندر صحنک باہر دربار کی تیاری دیکھو۔ صحنک

خشکہ ابل رہا ہے؛ دہی کھانڈ آیا، کورے کورے کونڈوں میں خشکہ نکال، دہی کھانڈ اس پر ڈال، ایک پردے کے مکان میں جہاں مرد کا نام بھی نہیں، ستھرا سا بہت اجلا دسترخوان بچھا، دہی خشکے کے کونڈے، چونے کی طشتریاں، چوڑیوں کے جوڑے، مسّی اور منہدی کی پڑیاں لال کاغذ اور کلاوے سے بندھی ہوئیں، عطر کی شیشیاں، لال لال اوڑھنیاں ٹھپے لگی ہوئیں، سوا سوا روپیہ چراغی کا، سات ترکاریاں دسترخوان پر چن دیں۔ بیوی زنیں آئیں، پہلے نیاز دی، ایک چھنگلی میں منہدی لگائی، لال اوڑھنیاں اوڑھیں، صحنک کھانے بیٹھیں۔ پہلے ایک ایک چونے کی طشتری کھائی، یہ پارسائی کا امتحان ہے۔ جو پارسا ہوتی ہیں ان کا منہ چونے سے نہیں پھٹتا۔ لو اب صحنک کھانی شروع کی۔ ایلو! وہ پھر دہی کھانڈ خشکے پر ڈالا، اب صحنک دوہرا رہی ہیں۔ لو صاحب وہ سب کونڈے صاف کر دیے۔ دسترخوان پر سے ایک ایک دانہ اٹھا کر کھا گئیں۔ چلمچی میں ہاتھ دھوئے، کلی کی۔ چلمچی کا پانی بھی ایک کنارے ڈال دیا کہ پاؤں تلے نہ آئے۔ مسّی ملی، عطر لگایا، چوڑیوں کے جوڑے، چراغی کے روپے لے لے کر رخصت ہوئیں۔ لو صحنک ہو چکی، دربار کی سیر دیکھو۔ جشن کا دربار

دیکھو! سب امیر امرا نقار خانے کے دروازے پر سے اتر کر پیدل دیوان عام میں چلے آتے ہیں؛ یہ پہلی آداب گاہ ہے۔ دیوان عام میں جالی کے دروازے میں دیکھنا کیسی موٹی سی لوہے کی زنجیر اڑی پڑی ہوئی ہے کہ آدمی سیدھا نہیں جا سکتا، سب جھک جھک کر زنجیر کے نیچے سے جاتے ہیں؛ یہ دوسری آداب گاہ ہے۔ ایلو! دیوان خاص کے دروازے پر کیا بڑا سا پردہ لال بانات کا کھنچا ہوا ہے؛ یہ لال پردہ کہلاتا ہے۔ مِردھے، پیادے، دربان، سپاہی، قُلار ہاتھوں میں لال لال لکڑیاں لیے کھڑے ہیں۔ جو کوئی غیر آدمی اندر جانے کا ارادہ کرے تو قلار وہی لال لکڑی آنکڑے دار گردن میں ڈال کھینچ کر باہر نکال دیتے ہیں۔ مگر جشن کے دن حکم عام تھا جس کا جی چاہے پگڑی باندھ کر چلا آئے، دربار کی سیر دیکھے۔

دیکھو! لال پردے کے پاس کھڑے ہو کر پہلے مجرا کرکے کہ یہ تیسری آداب گاہ ہے، پھر دیوان خاص میں تخت کے سامنے آداب بجا لا کر اپنی اپنی جائے پر کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ دیکھو! دیوان خاص میں فرش فروش کیا ہوا ہے، باناتی پردے کھنچے ہوئے ہیں۔ بیچوں بیچ میں سنگ مرمر کے ہشت پہلو چبوترے پر تخت طاؤس لگا ہوا ہے۔ اس کے آگے دلدا پیش گیر([12]) کھنچا ہوا ہے۔ دیکھنا کیا خوبصورت تخت بنا ہوا ہے۔ چاروں طرف تین تین در کیسے خوش نما محرابوں کے ہیں۔ گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں، اوپر بنگلے نما گول چھت، محراب دار، اس پر سونے کی کلسیاں؛ سامنے محراب پر دو مور آمنے سامنے موتیوں کی تسبیحیاں منہ میں لیے ہوئے کھڑے ہیں؛ سر سے پاؤں تک سونے میں لپا ہوا جگمگا رہا ہے۔ بیچ میں رومی مخمل اور زربفت کا مسند تکیہ لگا ہوا ہے۔ دو خواص ہما کے مورچھل لیے اہلو پہلو میں کھڑے ہیں، پیچھے ایک جا نماز بچھی ہے۔

معتبر الدولہ اعتبار الملک بہادر وزیر([13])، عمدۃ الحکما)[14]( حاذق زمان احترام الدولہ بہادر، شمس الدولہ بہادر([15])، معین الدولہ بہادر([16])، سیف الدولہ بہادر([17])، انیس الدولہ بہادر([18])، راجا مرزا بہادر، راجا بہادر، غیاث الدولہ بہادر، سحبانِ زمان نجم الدولہ بہادر، وقار الدولہ بہادر، مصلح الدولہ بہادر، علاء الدولہ بہادر، موسس الدولہ بہادر، سرفراز الدولہ بہادر، میر عدل بہادر، میر منشی دار الانشاءِ سلطانی، میر توزک وغیرہ اپنے اپنے مرتبے اور قاعدے سے دونوں ہاتھ جریب پر رکھے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ مِردھے، نقیب، چوب دار، عرض بیگی سامنے آداب گاہ کے پاس کھڑے ہیں۔

دیوان خاص کے صحن میں ایک طرف خاصے گھوڑے چاندی سونے کے ساز لگے ہوئے، ایک طرف ہاتھی مولا بخش،([19]) خورشید گنج،([20]) چاند مورت([21]) وغیرہ، رنگے ہوئے ماتھوں پر فولاد کی ڈھالیں، سونے کے پھولوں کی، کانوں میں ریشم اور کلابتون کے گپھے اور لڑیاں، کارچوبی جھولیں پڑی ہوئیں۔ ایک طرف ماہی مراتب، چتر، نشان، روشن چوکی والے، جھنڈیوں والے، ڈھلیٹ جمے کھڑے ہیں۔ حبشی، قلار چاندی کے شیر دہاں سونٹے، خاص بردار بندوقیں لیے ہوئے کٹہرے کے نیچے کھڑے ہیں۔

دیوان عام کے میدان میں ساری پلٹنیں جمی کھڑی ہیں۔ احتشام توپ خانے کی توپیں لگی ہوئی ہیں۔ ایلو! وہ جسولنی نے اندر سے آواز دی “خبردار ہو!”، نقیب چوب داروں نے جواب دیا “اللہ رسول خبردار ہے”۔ اوہو!!! وہ بادشاہ برآمد ہوئے، نقیب چوبدار پکارے “بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ رسول کی امان، دوست شاد، دشمن پائمال، بلائیں رد!” کہاروں نے جھٹ ہوادار کہاریوں سے لے لیا۔ پہلے بادشاہ نے تخت کے پیچھے اتر کر نماز کی دو رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھیں، دعا مانگی، پھر ہوادار میں سوار ہوئے۔ کہاروں نے ہوادار تخت طاؤس کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ نے تخت پر جلوس فرمایا، جھنڈیاں ہلیں، دنادن توپیں چلنے لگیں، سب فوج نے سلامی اتاری، شادیانے بجنے لگے۔ گوہر اکلیل سلطنت مہین پور خلافت، ولی عہد بہادر بائیں طرف تخت کے اور شاہ زادگان نام دار، والا تبار، قرۂ باصرۂ خلافت، غرۂ ناصیۂ سلطنت دائیں طرف تخت کے برابر، امیر امرا کے آگے کھڑے ہوئے۔ دیکھو! پہلے ولی عہد نذر دینے کھڑے ہوئے۔ وہ آداب گاہ پر آئے، مجرا کیا۔ نقیب پکارا “جہاں پناہ بادشاہ سلامت! عالم پناہ بادشاہ سلامت! مہابلی بادشاہ سلامت!”، مجرا کرکے بادشاہ کو جا کر نذر دی۔ بادشاہ نے نذر لے کر نذر نثار کو دے دی۔ پھر الٹے پاؤں آداب گاہ پر آئے، مجرا کر خلعت پہنا، جیغہ، سرپینچ، گوشوارہ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے سر پر باندھا؛ موتی، مالا، سپر، تلوار گلے میں ڈالی۔ اسی طرح آداب گاہ پرالٹے پاؤں آکر مجراکیا؛ خلعت کی نذر دی، پھر الٹے ہی پاؤں آداب گاہ پر آ، مجراکر، کھڑے ہوگئے۔

دیکھو! اب اسی طرح اور شاہ زادے اور سارے امیر امرا اپنے اپنے رتبے سے نذریں دے رہے ہیں؛ جواہر خانے میں سے خلعت پہن پہن کر آتے ہیں؛ بادشاہ اپنے ہاتھ سے شاہزادوں کے سرپر جیغہ، سرپینچ، گوشوارہ اور معزز امیروں کے سر پر گوشوارہ باندھ دیتے ہیں۔ آداب مجرے ہو رہے ہیں، نقیب، چوب دار پکار رہے ہیں “ملاحظہ، آداب‌سے کرو مجرا‌! جہاں پناہ بادشاہ سلامت! عالم پناہ بادشاہ سلامت! مہابلی بادشاہ سلامت!”

‌لو بادشاہ نے تکیہ سرکایا، فاتحہ کو ہاتھ اٹھایا۔ غرض بیگی پکارا “دربار برخاست”۔ کہاروں نے ہوادار تخت کے برابر لگادیا، بادشاہ سوار ہوئے۔خاصی دیوڑھی پر سے کہاریوں نے ہوادار لے لیا۔بادشاہ محل میں داخل ہوئے، سب لوگ رخصت ہوئے۔چالیس دن تک روز دربار خلعت اور نذریں ہوں گی اور انعام اکرام سب کارخانوں کے داروغاؤں اور آدمیوں کو حیثیت کے موافق ملیں گے۔اب محل کادربار دیکھو! محل کا دربار

‌دیکھو! یہ چاندی کاتخت، گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں، نیچے پایوں میں کیسے خوبصورت پھول پتے بنے ہوئے ہیں۔ اوپر کرکری تاش کا تخت پوش پڑاہوا، دائیں طرف ملکۂ دوراں اپنی مسند پر سر سے پاؤں تک سونے موتی جواہر میں ڈوبی ہوئیں، ناک میں نتھ جس میں چڑیا کے انڈے برابر موتی پڑے ہوئے ہیں، پہنے بیٹھی ہیں۔ ان کے برابر اور بیویاں اپنی اپنی سوزنیوں پر گہنا پاتا، ناک میں نتھیں پہنے بیٹھی ہیں۔ بائیں طرف شہزادیاں بناؤ سنگار کیے، سر سے پاؤں تک گہنے میں لدی ہوئی بیٹھی ہیں۔ سامنے حبشنیاں، ترکنیاں، قلماقنیاں، اُردا بیگنیاں، جسولنیاں، خواجہ سرائے جریبیں پکڑے مؤدب کھڑے ہیں۔ بادشاہ محل میں داخل ہوئے، جسولنی نے آواز دی “خبردار ہو!” سب بیگماتیں سر وقد کھڑی ہوگئیں، مجرا کیا۔ تخت پر سے تخت پوش خوجوں نے اُٹھایا، کہاریوں نے ہوادار تخت کے برابر لگادیا۔ بادشاہ تخت پر بیٹھے؛ خواجہ سرائے مورچھل لے کر تخت کے برابر کھڑے ہوگئے۔ پہلے ملکۂ دوراں نے کھڑے ہوکر مجرا کیا، نذر دی، پھر مجرا کرکے بیٹھ گئیں۔ اب اور بیویوں اور شاہ زادیوں نے اسی طرح اپنے اپنے رتبے سے نذریں دیں۔ بادشاہ نے سب کو بھاری بھاری دوپٹّے حیثیت کے موافق اپنے ہاتھ سے دیے۔ سب نے کھڑے ہو ہوکر دوپٹّے لیے، مجرا کیا، نذریں دیں۔ اب ناچ گانا شروع ہوا۔ ایلو! ناچنے والی تو اندر بادشاہ کے سامنے ناچ رہی ہے اور سازندے سرانچے کے پیچھے کھڑے طبلہ، سارنگی، تال کی جوڑی بجا رہے ہیں۔ تان رس خاں آئے، دو چار تانیں اُن کی سنیں۔ لو اب خاصے کی تیاری ہونے لگی؛ دربار برخاست ہوا، ناچ گانا موقوف ہوا۔ بادشاہ نے خاصہ نوش فرما کر سُکھ کیا۔ تیسرے پہر سب اسی طرح اکٹھے ہوگئے؛ بادشاہ مسند پر آکر بیٹھے۔ مٹھائی کے خوان اور آٹھ قابیں مٹھائی کی، ایک چاندی کی کشتی میں بڑا سا کلاوہ، پان کے بیڑے، ہری دوب، مصری کے کوزے، چاندی کا چھلا رکھا ہوا، اوپر کمخابی کشتی پوش کلابتونی جھالر کا پڑا ہوا آیا۔ جسولنی نے عرض کیا: “حضرت صاحب)[22]( تشریف لائے”۔ بادشاہ سر وقد تعظیم کو کھڑے ہوگئے، مسند پر بٹھایا۔

حضرت نے پہلی ایک قاب پر حضرت صلّی اللہ علیہ و سلم کی، دوسری پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی، تیسری پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی، چوتھی پر حضرت امام حسن حسینؑ کی، پانچویں پر بڑ بڑیڑوں کی، چھٹی پر بابر بادشاہ کی، ساتویں پر اوتوں کی، آٹھویں پر پریوں کی نیاز دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نیاز کا سوائے بیوی زنوں کے، بابر بادشاہ کی نیاز کا سوائے ان کی اولاد کے اور پریوں کی نیاز کا سوائے پارسا عورتوں کے اور کسی کو نہیں ملتا، اور باقی سب کی نیازوں کا سب کو تقسیم ہوجاتا ہے۔

دیکھو! حضرت صاحب نے کشتی میں سے کلاوہ نکالا؛ پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر ا یک گرہ اس میں لگائی، دوسری گرہ میں پان کا بیڑا باندھا، تیسری میں ہری دوب مصری کی ڈلی، چوتھی میں چاندی کا چھلا باندھا، پانچویں گرہ بادشاہ کے سر سے چھوا کر اس کلاوے میں لگائی۔ سب نے کھڑے ہو کر مجرا کیا، مبارک باد دی: “ایک سال یہ ہزار سال اور خدا نصیب کرے!”۔ سالگرہ کے شادیانے بجنے لگے۔ اب مہینا بھر تک دربار، نذریں، خلعت، انعام، تاج رنگ، مہمان داری اسی طرح ہوگی۔ نوروز کی رسمیں دیکھو!