بزم آخر/بارہ وفات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

بارہ وفات


ربیع الاول کے مہینے کو بارہ وفات کامہینا کہتے ہیں۔ پہلی تاریخ اس مہینے کی ہوئی، موتی محل میں فرش فروش ہوا، بیچ میں بادشاہ کی مسند لگی۔تیسرے پہر کو بادشاہ برآمد ہوئے۔ دائیں بائیں مشائخ لوگ، سامنے قوال آکر بیٹھے، گانا شروع ہوا۔ ایلو! مشائخوں میں سے کسی کو حالت آئی؛ دیکھو! کیاپٹخنیاں کھارہاہے۔او ہو! وہ حال کھیلتے کھیلتے کھڑا ہوگیا۔ بادشاہ اور سب لوگ ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جس شعر پر حالت آئی ہے، قوال اسی کو گھڑی گھڑی گائے جاتے ہیں، زور زور سے ڈھولکی پیٹے جاتے ہیں۔لو حال کھیل چکے، ہوش میں آگئے، چپکے ہوکر بیٹھ گئے، بادشاہ اور سب لوگ بھی بیٹھ گئے،‌گانا‌موقوف ہوا۔الائچی دانوں کے خوان آئے، ختم ہوا، الائچی دانے تقسیم ہوئے۔ بادشاہ اپنی بیٹھک میں آگئے۔سب لوگ رخصت ہوگئے۔ اب بارہ دن تک روز اسی طرح مجلس اور صبح شام کھانا مشائخوں([23]) اور ملنگوں کو ملے گا۔

بارھویں تاریخ ہوئی۔ دیکھو! محل اور مہتاب باغ کی درگاہ میں ٹھاٹھر بندی ہورہی ہے۔ لال لال کنول اور قمقمے، ان میں دغدغے رکھے گئے؛ رات ہوئی، روشنی ہونے لگی۔ پہلے بادشاہ محل کی درگاہ میں آئے۔مشائخ جمع ہوئے، قوال گانے لگے۔ یہاں بُنوں کے قہوے پر ختم ہو رہاہے۔دیکھو وہ قہوے کی پیالیاں بٹ رہی ہیں۔ عرس

اسی مہینے کی چودھویں تاریخ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا عرس ہوتاہے۔ بادشاہ خواجہ صاحب([24]) میں آئے اور شہر کی خلقت بھی جمع ہوئی۔بادشاہ نے‌مزار پر کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی، گلاب،صندل، پھول ملاکر چمچے سے قبر پر ڈالا۔ ستر روپے نذر اور بیس روپے کا شامیانہ، دس روپے کا قبر پوش چڑھایا؛ ساٹھ روپئے خادموں اور مشائخوں کے کھانا پکوانے کو دیے۔ایلو! وہ روشنی اور باجے گاجے سے منہدی آئی،دیکھو! گلاب کے شیشے، قبر کا غلاف شاہ زادوں کے سرپر ہے،منہدی کے ساتھ ساتھ چلے آتے ہیں۔ درگاہ میں آکر گلاب کے شیشے اور منہدی چڑھادی، غلاف قبر پر ڈالا، ختم ہوا۔ بادشاہ نے محل میں آکر خاصہ کھایا، آرام کیا۔ صبح کے ختم میں شامل ہو، سب وہاں سے رخصت ہوئے۔