بر سر لطف آج چشم دل ربا تھی میں نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بر سر لطف آج چشم دل ربا تھی میں نہ تھا
by سید یوسف علی خاں ناظم

بر سر لطف آج چشم دل ربا تھی میں نہ تھا
ڈھونڈھتی مجھ کو نگاہ آشنا تھی میں نہ تھا

یار کو مد نظر مشق جفا تھی میں نہ تھا
وائے قسمت کل وہاں میری قضا تھی میں نہ تھا

میرے ہوتے بے تکلف ہاتھا پائی غیر سے
قابل اس رتبے کے ظالم کیا حنا تھی میں نہ تھا

آہ میری نارسا فریاد میری بے اثر
نیند اڑا دی جس نے تیری وہ ہوا تھی میں نہ تھا

یاد فرمانا تھا مجھ کو بھی دم گلگشت باغ
ساتھ چلنے کو جلو میں کیا صبا تھی میں نہ تھا

اے پری پابوس سے محروم کیوں رکھا مجھے
خوں گرفتہ اس چمن میں کیا حنا تھی میں نہ تھا

وائے قسمت ڈھونڈتی تھی کل مجھے شمشیر یار
رحمت عام اس کی سر گرم عطا تھی میں نہ تھا

جام مینا بادہ ساقی چنگ دف بربط رباب
نہر گلشن چاندنی سبزہ فضا تھی میں نہ تھا

اپنے کوچے میں کیا ہوتا مجھے جاروب کش
صاحب اس خدمت کے قابل کیا صبا تھی میں نہ تھا

توڑ کر افلاک جو پہنچی سر عرش بریں
قدسیو وہ میری آہ نارسا تھی میں نہ تھا

عمر رفتہ تو ہی مجھ واماندہ کا سن لے پیام
قافلے والوں سے کہہ دینا کہ ساتھی میں نہ تھا

صبح وصل آزردگی مجھ سے ہی کس تقصیر پر
وجہ ناراضی تو میری التجا تھی میں نہ تھا

جب گلہ آشوب پردازوں کا اس بت سے کیا
بول اٹھا شوخی سے چشم فتنہ زا تھی میں نہ تھا

جام مینا بادہ ساقی تھا یہ سب ناظمؔ وہاں
پر مری قسمت کہ خالی میری جا تھی میں نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse