برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
by نسیم دہلوی

برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
مانگیں کچھ اور بھی خدا سے

اچھا اچھا عدو سے ملیے
جاؤ جاؤ جی بلا سے

کیا حال کہیں دل و جگر کا
ٹکڑے ٹکڑے ہے جا بہ جا سے

ٹوٹے کانٹے تو زخم روئے
آنسو ٹپکے خراش پا سے

راحت طلبی سمجھ کے اے دل
ایسے بے درد بے وفا سے

مطلوب وہی کہ جس کی فریاد
نکلے گا کام کیا دعا سے

رو لیں آؤ گلے لپٹ کر
فرصت پھر ہو نہ ہو قضا سے

ہم تک بھی کوئی شمیم گیسو
اتنا کہہ دیجیو صبا سے

گزرے کیا جس سے جان دے دے
پوچھو تو اپنے مبتلا سے

دیکھا سب کو نسیمؔ دیکھا
خاموش بیاں مدعا سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse