برہمن لے کے جو میرے لیے زنار آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
برہمن لے کے جو میرے لیے زنار آیا
by جمیلہ خدا بخش

برہمن لے کے جو میرے لیے زنار آیا
اس نے سمجھا کہ یہی بت کا خریدار آیا

خود خریدار ہوا حسن بتاں کا وہ کبھی
ہو کے یوسف وہ کبھی بر سر بازار آیا

شوق تھامے تھا کمر اور تمنا بازو
کوئے جاناں میں مرا جب دل بیمار آیا

لالہ رخ کیسا ہے دیکھوں تو ذرا چل کے اسے
کس لیے دل کی عمارت میں نہ وہ یار آیا

روز روشن سی شب تار ہوئی آنکھوں میں
جس گھڑی یاد ترا گیسوئے خم دار آیا

حسرت و یاس و تمنا کے ملے پشتارے
کارواں عشق کا مجھ تک یہ لیے بار آیا

کیا ڈراتا ہے مجھے تیغ دکھا کر قاتل
مقتل عشق میں مرنے کو میں تیار آیا

تلخیٔ مرگ بھی دینے لگی مجھ کو لذت
سر بالیں دم مردن جو مرا یار آیا

میرے دلبر کے تصور نے کیا اس کو حسیں
میں نہ سمجھا یہ قضا آئی کہ وہ یار آیا

کوئی لے جا کے مرے دل کو یہ کہتا اس سے
لے ترے گیسوئے پر خم کا گرفتار آیا

اے جمیلہؔ نہ ملا بت نہ ملا مجھ کو خدا
میں تو اس ہستئ موہوم میں بیکار آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse