برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے
برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے
الٹی کہیں دعاؤں کی تاثیر ہو نہ جائے
دل جل کے خاک ہو تو پھر اکسیر ہو نہ جائے
جاں سوز ہوں جو نالے تو تاثیر ہو نہ جائے
کس سادگی سے مجرموں نے سر جھکا لیا
محجوب کیوں وہ مالک تقدیر ہو نہ جائے
دست دعا تک اٹھ نہ سکے فرط شرم سے
یا رب کسی سے ایسی بھی تقصیر ہو نہ جائے
مستوں کی ٹھوکر اور مرا سر ہے ساقیا
دشمن کسی کا یوں فلک پیر ہو نہ جائے
اٹھنے ہی کو ہے بیچ سے پردہ حجاب کا
محفل تمام عالم تصویر ہو نہ جائے
غفلت نہ کیجیو کبھی قاتل کی یاد میں
اے دل کوئی کمی تہ شمشیر ہو نہ جائے
بیٹھا ہے لو لگائے کوئی تیغ ناز سے
قاتل کسی کے کام میں تاخیر ہو نہ جائے
جلدی سبو کو توڑ کے ساغر بنا لے اب
ساقی اس امر خیر میں تاخیر ہو نہ جائے
نالوں نے زور باندھا ہے پھر پچھلی رات سے
اے چرخ چلتے چلتے کوئی تیر ہو نہ جائے
دل سے بہت شکایتیں کرتے ہو یار کی
دیکھو قلم سے کچھ کبھی تحریر ہو نہ جائے
سیر چمن سے دل نہ لگاؤ چلے چلو
فصل بہار پاؤں کی زنجیر ہو نہ جائے
انجام کار پر نہیں کچھ اختیار یاسؔ
تقدیر سے خجل مری تدبیر ہو نہ جائے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |