برسوں آنکھوں میں رہے آنکھوں سے پھر کر دل میں آئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
برسوں آنکھوں میں رہے آنکھوں سے پھر کر دل میں آئے
by داغ دہلوی

برسوں آنکھوں میں رہے آنکھوں سے پھر کر دل میں آئے
راہ سیدھی تھی مگر پہنچے بڑے چکر سے آپ

کٹ گئے لاکھوں گلے اس تیزیٔ رفتار سے
اب تو چل نکلے زیادہ اپنے بھی خنجر سے آپ

اپنے سینہ سے دبا دیجے ذرا سینہ مرا
چور کیجے شیشہ دل کو اسی پتھر سے آپ
 
حضرت زاہد نکل آیا فلک پر آفتاب
پیر و مرشد اب تو اٹھیے میکدے کے در سے آپ

کیوں جناب داغؔ یاد اللہ میری یاد ہے
بھیس بدلے رات کو آتے تھے کس کے گھر سے آپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse