برباد نہ کر اس کو ذرا ہاتھ پہ دھر لا
Appearance
برباد نہ کر اس کو ذرا ہاتھ پہ دھر لا
اے باد صبا خاک در یار ادھر لا
صیاد سے کیا فکر ہے اے طائر مضموں
کاغذ کے تجھے پر بھی لگیں کام تو کر لا
لے جا دل بے تاب نشانی مری قاصد
سیماب سے ہے مرتبۂ عشق خبر لا
یہ کان ہیں مشتاق خبر قاصد جاناں
آنکھوں کو بھی دیدار ہے منظور نظر لا
حسرت ہے کہیں حسرت دل اس کی نکالے
اس اخترؔ غمگیں کے لئے دیدۂ تر لا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |