Jump to content

برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ

From Wikisource
برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ
by مجاز لکھنوی
300572برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہمجاز لکھنوی

برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ
ہاں میری محبت کا جواب اور زیادہ

روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ

آوارہ و مجنوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ
ملنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ

اٹھیں گے ابھی اور بھی طوفاں مرے دل سے
دیکھوں گا ابھی عشق کے خواب اور زیادہ

ٹپکے گا لہو اور مرے دیدۂ تر سے
دھڑکے گا دل خانۂ خراب اور زیادہ

ہوگی مری باتوں سے انہیں اور بھی حیرت
آئے گا انہیں مجھ سے حجاب اور زیادہ

اسے مطرب بیباک کوئی اور بھی نغمہ
اے ساقیٔ فیاض شراب اور زیادہ


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.