برا خاوند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
برا خاوند
by میر باقر علی

اکثر عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ خاوند برا ہے، یہ وہ سچ کہتی ہیں، لیکن میں ان کو اس طرف متوجہ کرتی ہوں کہ پہلے وہ یہ تو دیکھیں کہ وہ بھی، بُرائی کے مادۂ حسد، غصہ، خود غرضی، خود بینی سے پاک ہیں یا نہیں۔ انسان کو شک اور شبہ مکدر نہیں کرتا جو جیسا ہوتا ہے، وہ دوسروں کو بھی ویسا ہی دیکھتا ہے، ہاں اگر تم دوسروں سے مہربانی چاہتی ہو، تو پہلے خود مہربان بنو اور انکو اگر اپنے سے سچا چاہتی ہو تو سچی پہلے خود بنو، جیسا دو گی ویسا لو گی تمہاری دنیا تمہارے خیالات کا آئینہ ہے، جیسی تمہاری صورت ہوگی ویسی ہی تمہارے سامنے آئے گی۔ اگر ہاتھ کو آگ میں ڈال دو گی، تو کیا ہو گا، جل ہی جائے گا، دنیا میں بڑی بدبختی غصہ اور حسد ہے، ان کو جتنا بڑھاتی رہو گی، یہ آگ تیز ہوتی جائے گی، جو تمہاری ذات کو جلا کر خاک کر دے گی۔ اس کے خلاف محبت شرافت نیک نیتی یہ سب فرحت بخش ہیں، جس وقت انسان سمجھ گیا ان مسائل کو اس وقت اس میں مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے۔ جو شخص ہر حالت میں صابر رہتا ہے اور تمام حالتوں کو ضروری لوازم زندگی جانتا ہے وہ تمام تکلیفوں کو قابو میں لے آتا ہے تو یہ تکلیفیں اس وقت نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ جس طرح سے مصیبت اندر پیداہوتی ہے، آرام بھی اسی طرح اندر پیدا ہوتاہے۔

میں یہ سب تمہارے ہی واسطے لکھ رہی ہوں اور تم ہی سے یہ گفتگو کررہی ہوں، غور سے سنو اور دل میں جگہ دو اگر تم ان باتوں کو اختیار کرنے کا مصمم ارادہ کرلوگی تو تمہاری زندگی میں غضب کی تبدیلیاں نظر آئیں گی، اور تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گی۔ اکثر عورتیں ما ں باپ کو الزام دیتی ہیں کہ وہ بدبختی کا باعث ہوتے ہیں، نہیں بلکہ تم ہی اپنی تکالیف کا سبب ہو کیونکہ تم ہر وقت اپنی زندگی کو بدل سکتی ہو۔

اگر تم کسی بیدرد اور ظالم آقا کی نوکر ہو اور وہ تم سے بری طرح سے پیش آتا ہے تم اس کو اپنا سبق سمجھو اور اس کے ساتھ تم شرافت سے پیش آؤ اور صبر اور تحمل سے کام لو اور جو نقصان تمہیں پہنچا ہے اس سے یہ کام لو کہ اپنے میں دینی اور روحانی طاقت حاصل کرو اور اس سے اپنے آقا کو نہایت نرمی سے سبق دو کہ وہ خود شرمندہ ہوگا اور تم میں روحانی قوت حاصل ہوگی۔ اپنے قصور ڈھونڈنے میں اپنے اوپر رحم نہ کرو، شاید غلامانہ علامتیں مل جائیں، جب تم اپنے نفس کی غلام نہ ہوگی تو کسی کی مجال نہیں جو تم کو غلام بنائے۔ جب تم نفس اماّرہ کو جیت لوگی تو تمام مصیبتوں پر غالب آجاؤ گی، پھر تم خود دیکھ لو گی کہ جو تم کو ستا رہا ہے، وہ خود شرمندہ ہو کر تمہاری غلامی اختیار کرے گا، تم اس مغالطہ کو دور کرو۔ دوسرا تم پر ظلم نہیں کر سکتا تم خود اپنے اوپر ظلم کررہی ہو، دوسرے پر الزام نہ لگاؤ، اپنے اوپر الزام لگاؤ، نیکی سے باز نہ آؤ، اگر تم نیکی کے خلاف کروگی تو صبر کی قوت تم میں سے جاتی رہے گی، جو کچھ تم کو میسر ہو اس میں مستعدی سے کام لو، ورنہ ہمیشہ کے لیے تم مصیبت میں مبتلا رہو گی، اگر تم آقا کی موافقت کروگی، تو تمہاری قوت دوگنی اور کام کی ہو جا ئے گی، یہ تمہارا رات دن کا مشاہدہ ہے کہ ایک لکڑی چو لہے میں لگاؤ تو شعلہ نہیں دیتی جب دو لکڑیاں مل جائیں گی توشعلہ پیدا ہوگا۔

تم اپنے خاوند کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرواور جو میسر ہو اس پر قناعت کرو۔ اگر تمہارے پاس محل نہیں ہے تو تم اپنی جھونپڑی کو فردوس بنا سکتی ہو، اگر قالین نہیں ہے تو ہنسی خوشی اور مہر و محبت کی باتوں کا فرش ایسا بچھا سکتی ہو کہ اوپر لیٹے سے ہر کروٹ اور ہر پہلو آرام ہی آرام ہے، اور یہ وہ فرش ہے کہ نہ جس کو بارش خراب کر سکتی ہے اور نہ دھوپ۔ تم زندگی کے تھوڑے وقت سے مفید کام لو، اگر ایسا نہ کرو گی تو زیادہ وقت تم کو میسر نہ آئے گا اور تم کاہل اور بے پرواہ بن جاؤ گی۔ تمہاری سلطنت تمہارے اندر موجود ہے، جب طبیعت کو ادھر متوجہ کرو گی تو تمہاری مصیبتیں آسان ہو جائیں گی، جس قدر تم اپنے نفس کی قوتوں پر غالب رہو گی اسی قدر دنیا کے معاملات کو سمجھ سکو گی، جہالت ہی باعث تکلیف ہوتی ہے، جہالت سے تم ہر چیز کو قوت دیکر اپنے اوپر طاری کر لیتی ہو، تم دیکھو جس وقت تم کو غصہ آتا ہے تو تم اس کو رفع تو نہیں کرتیں، بلکہ یہ کوشش کرتی ہو کہ میں بڑھ کر بات کروں، تو تم ہی انصاف کرو کہ دوسرا بھی تم ہی جیسا ہے، وہ بھی ایسا ہی چاہے گا، تو کیاہوگا کہ جھگڑا بڑھ جائے گا اور جھگڑے میں سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ غصہ کی ابتدا جنوں اور انتہا پشیمانی، پھر یہ بتاؤ کہ اس خرابی کا باعث کون ہوا، تم یا دوسرا اور پھر تم خاوند کو بُرا کہو، غصہ کا زہر بدن میں سرائیت کرتا ہے، جو شخص نیک بن جاتاہے، وہ دنیا کو زیر کرلیتا ہے، جب انسان ناداری اورکمزوری کو مغلوب کر لیتا ہے تو اندر سے خود بخود ایک غیر مغلوب اور عالمگیر طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔

نیک دنیا کو زیر کر لیتاہے اور دولت مند اکثر خوشی سے محروم رہتا ہے، اکثر میری بہنیں شکایت کرتی ہیں کہ نوکر ہمارے پاس نہیں ٹھہرتا، بُوا کچھ ہمارے نمک ہی کی یہ تاثیر ہے۔

سنو بھاگ جانے کا عیب ان میں نہیں ہے، بلکہ تم اگر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ وہ عیب تم ہی میں ہے اس عیب کو اپنے ہی میں ڈھونڈو اور دریافت کرو کہ وہ کیا شے ہے جو دوسروں کے دلوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ تم تو نوکروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ، ان کے آرام کا خیال رکھو، ان کی بساط سے زیادہ کام نہ لو، جو خدمت اس پر جائز ہے وہ خدمت لو بلکہ اس کے ساتھ وہ کرو کہ جبسا تم کو تمہارا سچا خیال بتائے، پھر وہ تم سے اچھی طرح سے پیش آئے گا۔ بس یہی رمز ہے، اگر اس رمز کو سمجھ گئیں تو بیڑے پارہیں۔

اکثر کا قول ہے کہ ہمارا کوئی دوست نہیں، یہ کہہ کر وہ اوروں پر الزام تھوپتے ہیں، بلکہ وہ عیب خود ان کی ذات میں ہے۔ تم دشمنوں سے محبت کرو تو دوست خود تمہارے پاس آجائیں گے، جو شخص خود غرضی اختیار کرتا ہے وہ اپنے دشمن آپ پیدا کرتاہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ دوستوں سے گھرا رہتاہے۔ لڑائی، طاعون، قحط، یہ تمہارے بیجا خیال سے پیداہوتے ہیں۔ نفرت، غصہ، خودبینی، غرور، طمع، نفس پرستی، ضد یہ سب افلاس کی جڑیں ہیں اور اس کے خلاف محبت، شرافت، رحم، فیاضی یہ سب دولت کی سوتیں ہیں۔ ہر شخص کا اندازہ اس کی محبت سے کرو، جو شخض جذبوں کو قابو میں کر لیتا ہے وہ سب کے ساتھ محبت سے پیش آتاہے، جیسے سمندر کی تہہ سنسان ہے جہاں کسی طوفان کا اثر نہیں ہوتا، اسی طرح دل ہے، اگر اس کے اندر تم غور کرو تو تم کو معلوم ہوگا کہ دل کی تہہ امن سے بھری ہوئی ہے۔ بُری باتوں کا اثر بعد تک رہتا ہے جب آدمی قدرت کو سمجھ لیتاہے تو اپنے کو مٹی کا پتلا نہیں جانتا، بلکہ اس کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ میں کون ہوں اور کس واسطے پیدا کیا گیا ہوں، اور جسم کو جانتاہے کہ یہ میرا مکان ہے اور میں اس کا مالک ہوں۔ تم خاوند کی ذات سے اپنے کو الگ نہ سمجھو۔ دیکھو ٹہنی درخت سے الگ ہو کر گو ساری صفات اس میں درخت کی سی، صورت، پتے، کوپل موجود ہیں لیکن تھوڑی دیرمیں وہ مرجھا کر فناہو جائے گی۔ اسی طرح سے جب تم اپنے آپ کو الگ رکھو گی تو کیا ہوگا، جیسا ٹہنی کا حشرہوا۔ آگ جب تک چولہے میں ہے انگارہ باہر راکھ فقیر گھر کے اندر شاہ باہر گدا۔ جو شخص غصے او ر جذبوں سے کام لیتاہے وہ اپنی طاقت کم کردیتاہے۔ خواہش مثل سمندر کے لاانتہا شے ہے۔ تم جتنا اس کے پورا کرنے کی خواہش کرو گی وہ اور بھی زیادہ ہوتی جائے گی کیونکہ پانی جتنا سمندرمیں آئے گا اس کا شور سوا ہوتا جائے گا۔ خواہش دوزخ کا ملک ہے کہ تمام مصیبتیں وہیں آکر جمع ہوتی ہیں اور ترک خواہش جنت ہے او ریہ دونوں تمہارے اختیار میں ہیں۔ جب تم یہ سمجھنے لگو گی کہ خواہش کی حقیقت کیا ہے تو تمام جذبوں پر غالب آجاؤ گی۔ یہ سمجھ کر تم اپنے ارادہ پر قائم رہو، دو دِلا شخص کامیاب نہیں ہوتا۔ تم اب تک جن وحشیانہ خواہشوں کا شکار بنی رہیں اب تم ان پر اقتدار پیدا کرو اور بدگوئی، کہل کہلا کر بلا کسی سبب کے ہنسنا لغو اور بے معنی باتیں کہ ان میں سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں ہے، ترک کرو، جوش یا جذبہ سے کام لینا گویا قوت کا کم کرنا ہے۔ جس قدر تم اپنے نفس کی قوتوں پر غالب رہو گی، اسی قدر تم دنیا کے معاملات کو سمجھ سکو گی۔ تمہارا خیال تمہاری ایک تصویر ہے جو دوسروں کے آئینہ دل پر پڑ کر اور وہاں سے منعکس ہو کر تم پر برا یا بھلا اثر پیدا کرے گی۔ دشمنی اور فساد اور کینہ یہ سب بدی کے گویا قاصد ہیں، جو برے خیالات کو تمہارے دلوں میں اکساتے ہیں، جب تم ان قاصدوں کو دوسروں کی طرف بھیجتی ہو تو دوسرا ان کو زبردست کرکے اورخلعت پہنا کر تمہاری طرف روانہ کرتے ہیں اور جو نیک ہیں وہ اس کے خلاف، اچھا وہ ہے جو بری قوتوں پر قادر ہو، اور برا وہ ہے جو ان قوتوں کے بس میں ہو۔ اس کے حاصل کرنے کی صورت اس سے بہتر نہیں کہ انسان اپنے کو قابو میں رکھے۔ اگر تم اندرونی قوتوں کے بس میں رہو گی تو بیرونی مدد کی محتاج رہوگی۔ دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں جوروح سے پیدا نہ ہو تی ہو۔ ان سب مصیبتوں کی جڑ گناہ ہیں اور یہ کیوں ہیں کہ تم کو مختلف اشیاء کاعلم نہیں، جب تک کسی شے کاعلم نہیں ہوتا اس وقت تک آدمی بے قرار رہتا ہے۔ ایک بچہ شمع پکڑنے کی ضد کیا کرتا تھا اور اس کی ماں اس کو روکتی رہتی تھی۔ ایک روز ماں اس کی کسی کام کو گئی ہوئی تھی اور بچہ کا قابو چل گیا، اور اس نے دوڑ کرشمع کو پکڑ لیا، نتیجہ معلوم ہوگیا، پھراس نے ضد نہ کی۔ جب تک اس کو شمع کے جلانے کا علم نہ ہوتا بے قرار رہتا، جب علم ہو گیا بے قراری جاتی رہی۔ تم حسد، طمع، غصہ کی تو مطیع رہو اور کامل صحت کی امید کرو تو کیا ہوگا کہ ہمیشہ بیماری کے پیچ میں مبتلا رہو گی۔ غصہ میں صحیح فیصلہ کی قوت نہیں ہوتی۔ اگر تم اپنے نفس کو نیک خیال میں لگاؤ گی خود نیک ہو جاؤ گی، جب فضول خیالات تمہارے ذہن سے نکل جائیں گے تو راحت ہی راحت ہے۔ ہم ایک جسم کے اعضاء ہیں، اگر جسم میں کسی اعضاء کو تکلیف ہوگی تو کیا ہوگا کہ تمام جسم بے چین ہوگا۔ جاہل اپنا مقصد نکالنے میں تمام دنیا کو اگر نقصان پہنچے تو دریغ نہیں کرتا، محبت تمہاری ضرورت کے وقت تمہاری پشت پناہ ہو جائے گی۔ اگر تم دل سے کام کو کرناچاہتے ہو تو اپنی سمجھ سے فائدہ اٹھاؤ اور جو تمہارے خیال میں آیا ہے شروع کرو، جرأت یا حوصلہ جادو کا اثر رکھتاہے اور اس کے ساتھ ذہانت اور طاقت سب کچھ آجاتی ہے۔ شروع کرنے کی دیر ہے، انشاء اللہ اختتام کو پہنچ جاوے گا۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse