بد گماں کیا قبر میں ارماں ترے لے جائیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بد گماں کیا قبر میں ارماں ترے لے جائیں گے
by صفی اورنگ آبادی

بد گماں کیا قبر میں ارماں ترے لے جائیں گے
ہم اکیلے آئے ہیں جیسے اکیلے جائیں گے

کس قدر ثابت قدم ہیں رہ روان کوئے دوست
جائیں گے پھر ان کی کوئی جان لے لے جائیں گے

حضرت دل اور پھر جائیں نہ اس کی بزم میں
جھڑکیاں دے لے کوئی الزام دے لے جائیں گے

تم ستا لو مجھ کو لیکن یوں نہ ہر اک سے ملو
ظلم سہہ لوں گا مگر صدمے نہ جھیلے جائیں گے

اس گلی میں ڈال دو تا سنبھلیں ٹھوکر کھا کے غیر
یوں بھی اک دن خاک میں آنکھوں کے ڈھیلے جائیں گے

ہے دعاؤں کا اثر سنگ حوادث ہی اگر
اپنے ہاتھوں پھر تو یہ صدمے نہ جھیلے جائیں گے

خیر خواہوں راز داروں کی بہت نیت دیکھ لی
آج سے ہم اس کی محفل میں اکیلے جائیں گے

بے کسی میں کون کس کا ساتھ دیتا ہے صفیؔ
ملنے والے ہیں تماشے کے یہ میلے جائیں گے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse