بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
by شکیب جلالی

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

رہ تو گئی فریب مسیحا کی آبرو
ہر چند غم کے ماروں کا چارہ نہ ہو سکا

خوش ہوں کہ بات شورش طوفاں کی رہ گئی
اچھا ہوا نصیب کنارا نہ ہو سکا

بے چارگی پہ چارہ گری کی ہیں تہمتیں
اچھا کسی سے عشق کا مارا نہ ہو سکا

کچھ عشق ایسی بخش گیا بے نیازیاں
دل کو کسی کا لطف گوارا نہ ہو سکا

فرط خوشی میں آنکھ سے آنسو نکل پڑے
جب ان کا التفات گوارا نہ ہو سکا

الٹی تو تھی نقاب کسی نے مگر شکیبؔ
دعووں کے باوجود نظارہ نہ ہو سکا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse