بد طالعی کا علاج کیا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بد طالعی کا علاج کیا ہو
by امداد علی بحر

بد طالعی کا علاج کیا ہو
آزار بھی ہو تو لا دوا ہو

آئینے کی شکل خود نمائی ہو
بے دید ہو صورت آشنا ہو

حسن نمکین کو لے کے چاٹیں
جب اپنی ہی زیست بے مزا ہو

اے درد فراق کے مریضوں
گھرا لگے اس طرح کراہو

محرم کے جو بند کھول دے یار
بنگلہ مرے حق میں دل کشا ہو

کیا ہے مجھے دیتے ہو گلوری
چونے میں کہیں نہ سنکھیا ہو

دیکھے نہ مژہ کی سوزن ایسے
سے وے جو کسی کا دل پھٹا ہو

قاضی کو جو رند کچھ چٹا دیں
مسجد کی بغل میں مے کدہ ہو

پایا نہ مزاج مر مٹے ہم
کیا جانیے کس کے آشنا ہو

مغرور ہو اپنے حسن پر یار
کیا غم کوئی خوش ہو یا خفا ہو

یار آئے جو میرے گھر مراد آئے
جاگیں جو نصیب رت جگا ہو

سائے سے تمہارے بچ کے چلیے
دیوانہ بنانے کو بلا ہو

مشعل نہ سواری میں رہے سانہ
گھوڑا نہ کہیں چراغ پا ہو

وہ چال چلو کہ دل ہو تسخیر
حب کا تعویذ نقش پا ہو

چاہوں جو فلک سے فرش ماتم
ٹوٹا بھی نہ گہر میں نہ بوریا ہو

پھر میری طرف پھرا وہ قاتل
تسمہ نہ کہیں لگا رہا ہو

جو ایک کہو گے دو سنو گے
پرواہ نہیں خوش ہو یا خفا ہو

ممتاز ہیں کشتگان معشوق
ہے عین کرم اگر جفا ہو

وہ میری جو بوٹیاں اڑائیں
جرجیس کا مرتبہ عطا ہو

دم نکلے ہجوم غم میں کیوں کر
کچھ بھیڑ چھٹے تو راستہ ہو

دنیا سے اٹھے مریض فرقت
اے دار مسیح تو عصا ہو

سبزے میں چہ ذقن ہے خس پوش
ایسا نہ ہو خضر سے دغا ہو

ہم زخم جگر نہیں دکھاتے
آنکھیں نہ چراؤ خوش نگاہو

پیش آؤ ہر اک سے آئینہ دار
بیگانہ ہو یا کہ آشنا ہو

سیکھو یہ طریق آدمیت
جو چال چلو اسے نباہو

تلوار ابرو کی وہ خریدی
جو مفت سر اپنا بیچتا ہو

چمکے جو ستارۂ بلندی
طاؤس فلک مجھے ہما ہو

اے بحرؔ نہیں ہے ان تلون تیل
مفتوں نہ کسی کے خال کا ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse