بدعت مسنون ہو گئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بدعت مسنون ہو گئی ہے
by نظم طباطبائی

بدعت مسنون ہو گئی ہے
امت مطعون ہو گئی ہے

کیا کہنا تری دعا کا زاہد
گردوں کا ستون ہو گئی ہے

رہنے دو اجل جو گھات میں ہے
مجھ پر مفتون ہو گئی ہے

حسرت کو غبار دل میں ڈھونڈو
زندہ مدفون ہو گئی ہے

وحشت کا تھا نام اول اول
اب تو وہ جنون ہو گئی ہے

واعظ نے بری نظر سے دیکھا
مے شیشے میں خون ہو گئی ہے

عارض کے قرین گلاب کا پھول
ہم رنگ کی دون ہو گئی ہے

بندہ ہوں ترا زبان شیریں
دنیا ممنون ہو گئی ہے

حیدرؔ شب غم میں مرگ ناگاہ
شادی کا شگون ہو گئی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse