بحر ہستی میں صحبت احباب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بحر ہستی میں صحبت احباب
by نظیر اکبر آبادی

بحر ہستی میں صحبت احباب
یوں ہے جیسے بروئے آب حباب

گردش آسماں میں ہم کیا ہیں
پر کاہے میانۂ گرداب

بادۂ ناب کیا ہے خون جگر
زردئ رنگ ہے شب مہتاب

جس کو رقص و سرود کہتے ہیں
وہ بھی ہے اک ہوائے خانہ خراب

عمر کہتے ہیں جس کو وہ کیا ہے
مثل تحریر موج نقش بر آب

جسم کیا روح کی ہے جولا نگاہ
روح کیا اک سوار پا بہ رکاب

حسن اور عشق کیا ہیں یہ بھی ہیں
خطفہ برق و قطرۂ سیماب

زندگانی و مرگ بھی کیا ہیں
ایک مثل خیال و دیگر خواب

فرصت عمر قطرۂ شبنم
وصل محبوب گوہر نایاب

کیوں نہ عشرت دو چند ہو جو ہے
یار مہ چہرہ اور شب مہتاب

سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیرؔ دل کی کتاب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse