بحث کیوں ہے کافر و دیں دار کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بحث کیوں ہے کافر و دیں دار کی
by بہرام جی

بحث کیوں ہے کافر و دیں دار کی
سب ہے قدرت داور دوار کی

ہم صف قالوا بلیٰ میں کیا نہ تھے
کچھ نئی خواہش نہیں دیدار کی

ڈھونڈھ کر دل میں نکالا تجھ کو یار
تو نے اب محنت مری بیکار کی

شکل گل میں جلوہ کرتے ہو کبھی
گاہ صورت بلبل گل زار کی

آپ آتے ہو کبھی سبحہ بکف
کرتے ہو خواہش کبھی زنار کی

لن ترانی آپ کی موسیٰ سے تھی
ہر جگہ حاجت نہیں انکار کی

خاص ہیں مقتول شمشیر جفا
کچھ تو لذت ہے تری تلوار کی

دیر و کعبہ میں کلیسا میں پھرے
ہر جگہ ہم نے تلاش یار کی

سب کی ہے تقدیر تیرے ہاتھ میں
کیا شکایت مسلم و کفار کی

ہم میں جوہر تھے عبادت خاص کے
کر دیا انساں یہ مٹی خوار کی

مہر و مہ کو عمر بھر دیکھا کئے
تھی تمنا روئے پر انوار کی

اور اے بہرامؔ اک لکھو غزل
آپ کو قلت نہیں اشعار کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse