بجھا سا رہتا ہے دل جب سے ہیں وطن سے جدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بجھا سا رہتا ہے دل جب سے ہیں وطن سے جدا
by اختر شیرانی

بجھا سا رہتا ہے دل جب سے ہیں وطن سے جدا
وہ صحن باغ نہیں سیر ماہتاب نہیں

بسے ہوئے ہیں نگاہوں میں وہ حسیں کوچے
ہر ایک ذرہ جہاں کم ز آفتاب نہیں

وہ باغ و راغ کے دلچسپ و دل نشیں منظر
کہ جن کے ہوتے ہوئے خلد مثل خواب نہیں

وہ جوئبار رواں کا طرب فزا پانی
شراب سے نہیں کچھ کم اگر شراب نہیں

برنگ زلف پریشاں وہ موج ہائے رواں
کہ جن کی یاد میں راتوں کو فکر خواب نہیں

سما رہے ہیں نظر میں وہ مہوشان حرم
حرم میں جن کے ستارے بھی باریاب نہیں

وطن کا چھیڑ دیا کس نے تذکرہ اخترؔ
کہ چشم شوق کو پھر آرزوئے خواب نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse