بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم
by آغا اکبرآبادی

بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم
مرا طائر دل اسی قید میں ہے مجھے زلف کے دام بلا کی قسم

نہیں بھاتا مجھے کوئی رشک پری کوئی لاکھ حسیں ہو بلا سے مری
مرا دل ترا عاشق شیفتہ ہے مجھے تیرے ہی ناز و ادا کی قسم

مرے دل کو ذرا نہیں تاب و تعب کہ اٹھاؤں تمہارا یہ قہر و غضب
مرے قتل میں دیر نہ چاہئے اب تمہیں اپنے ہی جور و جفا کی قسم

نہ تو حور ہی کو یہ ملا ہے نمک نہ پری ہی کے رخ میں ہے ایسی چمک
ترے سامنے پھیکے ہیں شمس و قمر مجھے ترے ہی رخ کی ضیا کی قسم

مجھے عطر حنا کی نہیں ہے ہوا مجھے پھولوں سے ہوتا ہے داغ سوا
کبھی نکہت زلف سنگھا دے صبا تجھے نافۂ مشک خطا کی قسم

مرے بعد سہے گا نہ کوئی بھی غم نہ اٹھے گا کسی سے یہ رنج و الم
کرو ترک تم آج سے ظلم و ستم تمہیں اپنی ہی مہر و وفا کی قسم

کبھی درد سے روتا ہو آغاؔ اگر تو ہنسی سے یہ کہتا ہے وہ گل تر
مرا مان کہا ارے نالہ نہ کر تجھے بلبل نغمہ سرا کی قسم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.