بت اپنے آپ کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بت اپنے آپ کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

بت اپنے آپ کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں
مرا خدا انہیں سمجھے خدا سمجھتے ہیں

ادا شناس کی اپنے ادا سمجھتے ہیں
کہ بے کہے وہ مرا مدعا سمجھتے ہیں

سمجھنے والے تمہاری ادا سمجھتے ہیں
وہ اور کچھ ہے جسے سب قضا سمجھتے ہیں

فلک کا نام نہ لے کوئی سامنے ان کے
وہ اس کے ذکر کو اپنا گلا سمجھتے ہیں

مجھے یہ آپ کے سر کی قسم نہ تھا معلوم
کہ آپ بھی رہ و رسم وفا سمجھتے ہیں

یہ شوخیاں بھی حسینوں کی کیا قیامت ہیں
شب وصال کو روز جزا سمجھتے ہیں

یہ دن شباب کے ہیں کوئی کیا کہے ان کو
ابھی وہ کچھ نہیں اچھا برا سمجھتے ہیں

تمہارے کھوئے ہوؤں کا عجیب مسلک ہے
جو راہزن بھی ملے رہنما سمجھتے ہیں

شب وصال مرے ہم نشیں سے فرمایا
یہی تو ہیں جو ہمیں بے وفا سمجھتے ہیں

خدا کرے کہیں موقع سے مجھ کو مل جائیں
یہی حسیں جو مجھے پارسا سمجھتے ہیں

ہمیں یہ حق ہے ترا منہ بھی چومتے جائیں
کہ تیرے شکوۂ بے جا بجا سمجھتے ہیں

نہ منع کر مے و معشوق سے ہمیں واعظ
کہ ہم شباب میں سب کچھ روا سمجھتے ہیں

خدا کی شان یہ کوٹھوں کے بیٹھنے والے
ہماری آہ کو اب نارسا سمجھتے ہیں

ریاضؔ عشق میں کافر بتوں کے ہے بے خود
مزا یہ ہے وہ اسے پارسا سمجھتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse