بتو خدا پہ نہ رکھو معاملہ دل کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بتو خدا پہ نہ رکھو معاملہ دل کا
by امداد علی بحر

بتو خدا پہ نہ رکھو معاملہ دل کا
برا بھلا یہیں ہو جائے فیصلہ دل کا

بتوں سے ہے متعلق معاملہ دل کا
خدا ہے حشر میں بھی ہو جو فیصلہ دل کا

چلو بلا سے اگر ہے یہ آستین کا سانپ
بغل میں پال کے میں کیا کروں گلہ دل کا

خیال زلف میں سینے پہ سانپ لوٹتے ہیں
دہان مار کا چھالا ہے آبلہ دل کا

سنوں تمہاری کہ اپنی کہوں حقیقت حال
تمہیں ہے میری شکایت مجھے گلہ دل کا

خدا یہ نالہ و فریاد ساز وار کرے
کہ دل لگی ہے ہماری یہ مشغلہ دل کا

بھٹک کے کوئی گیا دیر کو کوئی کعبے
عجیب بھول بھلیاں ہے مرحلہ دل کا

میں عشق قد میں الف کھینچ کر ہوا ہوں فقیر
میں زلف یار سے رکھتا ہوں سلسلہ دل کا

کسی کے زلف نے برہم کیے ہیں ہوش و حواس
لٹا ہے شام کے رستے میں قافلہ دل کا

خزاں رسیدوں کو باغ و بہار سے کیا کام
نہ اب وہ جوش طبیعت نہ ولولہ دل کا

زمانہ اور ہے اوباشوں کا وقت نہیں
نہ وہ مزاج ہمارا نہ حوصلہ دل کا

یہ کس صنم کی محبت میں مرتبہ پایا
ہوا جو عرش خدا سے مقابلہ دل کا

کمال یار کے ہاتھوں جلا ہوں میں اے بحرؔ
ہتھیلی کا ہے پھپھولا یہ آبلہ دل کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse