بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ
by نظیر اکبر آبادی

بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ
پڑے ہیں دل پہ کیا کیا پیچ پر پیچ

طریق عشق بے رہبر نہ ہو طے
کہ ہے یہ رہ نہایت پیچ در پیچ

نہ ہووے دل کی تکل کٹ کے برباد
اگر ڈالے نہ وہ تار نظر پیچ

وہ زلف اس کی جو ہے پر پیچ و پر خم
کمند جاں ہے اے دل اس کا ہر پیچ

نظیرؔ اک روز اپنے زخم سر کو
جو باندھا ہم نے دے کر بیشتر پیچ

نظر کرتے ہی اس سرکش نے اک بار
کہا کر کے سخن کا مختصر پیچ

دعا دیجے ہماری تیغ کو آج
کہ جس نے آپ کو بخشا یہ سر پیچ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse