بتوں کی مجلس میں شب کو مہ رو جو اور ٹک بھی قیام کرتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بتوں کی مجلس میں شب کو مہ رو جو اور ٹک بھی قیام کرتا
by نظیر اکبر آبادی

بتوں کی مجلس میں شب کو مہ رو جو اور ٹک بھی قیام کرتا
کنشت ویراں صنم کو بندہ برہمنوں کو غلام کرتا

خراب خستہ سمجھ کے تو نے پیارے مجھ کو عبث نکالا
جو رہنے دیتا تو گل رخوں میں قسم ہے میری میں نام کرتا

کروڑوں دل جو موے پڑے ہیں نکلتے خونیں کفن سے نالاں
قیامت آ جاتی جو وہ قامت گلی میں اپنی خرام کرتا

نہ اتنے قصے نہ جنگ ہوتی پیارے تیرے ملاپ اوپر
رقیب آپی سے زہر کھانے جو وصل کا تو پیام کرتا

وہ سرو قامت جو مسکرا کر چمن میں جاتا تو مسکرا کر
تڑپتی بلبل سسکتی قمری گلوں پہ ہنسنا حرام کرتا

بھلا ہوا جو نقاب تو نے اٹھایا چہرے سے ہے پری رو
وگرنہ سینے سے دل تڑپ کر نگہ میں آ کر مقام کرتا

جو زلفیں مکھڑے پہ کھول دیتا صنم ہمارا تو پھر یہ گردوں
نہ دن دکھاتا نہ شب بتاتا نہ صبح لاتا نہ شام کرتا

وہ بزم اپنی تھی مے خوری کی فرشتے ہو جاتے مست بے خود
جو شیخ جی واں سے بچ کے آتے تو پھر میں ان کو سلام کرتا

نظیرؔ تیری اشارتوں سے یہ باتیں غیروں کی سن رہا ہے
وگرنہ کس میں تھی تاب و طاقت جو اس سے آ کر کلام کرتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse