بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
by حفیظ جونپوری

بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
مری حسرت مرے ارمان ہو میری تمنا ہو

محبت میں قلق ہو رنج ہو صدمہ ہو ایذا ہو
یہ سب کچھ ہو کوئی پردہ نشیں لیکن نہ رسوا ہو

تم اپنے حسن کی کیا بوالہوس سے داد پاؤ گے
اسے پوچھو مرے دل سے کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو

مرے دل کو نہ مل تلووں سے اپنے میں یہ ڈرتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو اس میں کوئی خار تمنا ہو

نہ دیکھوں کس طرح حسن خداداد ان حسینوں کا
بھلا ان زاہدوں کی طرح کون آنکھوں کا اندھا ہو

تری تصویر بھی ہے باعث دل بستگی لیکن
اسے تسکین کیا ہو جو تری باتوں پہ مرتا ہو

حفیظؔ آنا ہوا ہے پھر عظیم آباد میں اپنا
پھر اگلے ولولے پیدا ہوئے اب دیکھیے کیا ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse