بانی جور و جفا ہیں ستم ایجاد ہیں سب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بانی جور و جفا ہیں ستم ایجاد ہیں سب
by امانت لکھنوی

بانی جور و جفا ہیں ستم ایجاد ہیں سب
راحت جاں کوئی دلبر نہیں جلاد ہیں سب

کبھی طوبیٰ ترے قامت سے نہ ہوگا بالا
باتیں کہنے کی یہ اے غیرت شمشاد ہیں سب

مژہ و ابرو و چشم و نگہ و غمزہ و ناز
حق جو پوچھو تو مری جان کے جلاد ہیں سب

سرو کو دیکھ کے کہتا ہے دل بستۂ زلف
ہم گرفتار ہیں اس باغ میں آزاد ہیں سب

کچھ ہے بیہودہ و ناقص تو امانتؔ کا کلام
یوں تو کہنے کو فن شعر میں استاد ہیں سب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse