بام پر آئے کتنی شان سے آج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بام پر آئے کتنی شان سے آج
by ریاض خیرآبادی

بام پر آئے کتنی شان سے آج
بڑھ گئے آپ آسمان سے آج

جب کہا ہم خفا ہیں جان سے آج
بولے خوش کر دیں امتحان سے آج

کس مزے کی ہوا میں مستی ہے
کہیں برسی ہے آسمان سے آج

بے تکلف نہ ہو کوئی ان سے
بنے بیٹھے ہیں میہمان سے آج

میں نے چھیڑا تو کس ادا سے کہا
کچھ سنو گے مری زبان سے آج

دل کے ٹکڑوں کی طرح ہم نے چنے
ٹکڑے کچھ دل کی داستان سے آج

نیچی داڑھی نے آبرو رکھ لی
قرض پی آئے اک دکان سے آج

اونچے کوٹھوں کے بیٹھنے والے
باتیں کرتے تھے آسمان سے آج

ناتواں دل کی بے زباں دل کی
آپ نے سن لی اپنے کان سے آج

کوئی جا کر ریاضؔ کو سمجھائے
کچھ خفا ہیں وہ اپنی جان سے آج

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse