بال بکھیرے آج پری تربت پر میرے آئے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بال بکھیرے آج پری تربت پر میرے آئے گی
by بھارتیندو ہریش چندر

بال بکھیرے آج پری تربت پر میرے آئے گی
موت بھی میری ایک تماشہ عالم کو دکھلائے گی

محو ادا ہو جاؤں گا گر وصل میں وہ شرمائے گی
بار خدایا دل کی حسرت کیسے پھر بر آئے گی

کاہیدہ ایسا ہوں میں بھی ڈھونڈا کرے نہ پائے گی
میری خاطر موت بھی میری برسوں سر ٹکرائے گی

عشق بتاں میں جب دل الجھا دین کہاں اسلام کہاں
واعظ کالی زلف کی الفت سب کو رام بنائے گی

چنگا ہوگا جب نہ مریض کاکل شب گوں حضرت سے
آپ کی الفت عیسیٰ کی اب عظمت آج مٹائے گی

بہر عیادت بھی جو نہ آئیں گے نہ ہمارے بالیں پر
برسوں میرے دل کی حسرت سر پر خاک اڑائے گی

دیکھوں گا محراب حرم یاد آئے گی ابروئے صنم
میرے جانے سے مسجد بھی بت خانہ بن جائے گی

غافل اتنا حسن پہ غرہ دھیان کدھر ہے توبہ کر
آخر اک دن صورت یہ سب مٹی میں مل جائے گی

عارف جو ہیں ان کے ہیں بس رنج و راحت ایک رساؔ
جیسے وہ گزری ہے یہ بھی کسی طرح نبھ جائے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse