بالیں پہ ہو اے جان جو رعنائی سے گزرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بالیں پہ ہو اے جان جو رعنائی سے گزرے
by دیا شنکر نسیم

بالیں پہ ہو اے جان جُو رعنائی سے گزرے
مردہ میرا دیکھے جُو مسیحائی سے گزرے

غم مرنے کا اپنے تُو نہ تھا گور میں جاکر
اندیشہ ہزاروں تیری رعنائی سے گزرے

دیوانہ سے پرسش ہے نہ ویرانے سے حاصل
نادانی میں کیوں ہوئے تُو دانائی سے گزرے

بھریے وہیں تک جس میں نہ چھلکے میرے صاحب
اِس طرح کی ہم لاف شکیبائی سے گزرے

کہتے تھے وُہ کل سن کہ نسیمؔ آپ کا چرچا
اکثر ہیں ادھر سے بھی وُہ سودائی سے گزرے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse