بالائے بام غیر ہے میں آستان پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بالائے بام غیر ہے میں آستان پر
by ریاض خیرآبادی

بالائے بام غیر ہے میں آستان پر
چاہیں جسے چڑھائیں حضور آسمان پر

کیوں نامراد آہ گئی آسمان پر
ٹوٹے نہ آسمان کہیں میری جان پر

رسوائیاں ہیں ساتھ وہ چھپ کر ہزار جان
سو سو کے سر جھکے ہیں قدم کے نشان پر

آنا اسے ضرور گو ہوں لاکھ اہتمام
عاشق ہے ان کی نیند مری داستان پر

تھا راز دار حسن وہ کافر جو کہہ گیا
معشوق دل کی بات نہ لائیں زبان پر

ان کی گلی میں رات میں اس وضع سے گیا
گھبرا کے پاسبان گرے پاسبان پر

نازک سی تیغ یار ہے کیا زہر کی بجھی
کھائے ہوئے ہے زہر مرے امتحان پر

بنتے ہیں شوخیوں سے وہ سورج بھی چاند بھی
نقش قدم بھی آپ کے ہیں آسمان پر

خلوت میں بھی چلی ہیں کہیں سینہ زوریاں
اس طرح آپ تن کے اٹھے کس گمان پر

ذکر مے طہور نے تڑپا دیا ریاضؔ
جانا پڑا ہمیں کسی اونچی دکان پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse