باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
by داغ دہلوی

باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
افسانہ عاشقوں کا فقط یاد رہ گیا

یہ سخت جاں تو قتل سے ناشاد رہ گیا
خنجر چلا تو بازوئے جلاد رہ گیا

پابندیوں نے عشق کی بیکس رکھا مجھے
میں سو اسیریوں میں بھی آزاد رہ گیا

چشم صنم نے یوں تو بگاڑے ہزار گھر
اک کعبہ چند روز کو آباد رہ گیا

محشر میں جائے شکوہ کیا شکر یار کا
جو بھولنا تھا مجھ کو وہی یاد رہ گیا

ان کی تو بن پڑی کہ لگی جان مفت ہاتھ
تیری گرہ میں کیا دل ناشاد رہ گیا

پر نور ہو رہے گا یہ ظلمت کدہ اگر
دل میں بتوں کا شوق خداداد رہ گیا

یوں آنکھ ان کی کر کے اشارہ پلٹ گئی
گویا کہ لب سے ہو کے کچھ ارشاد رہ گیا

ناصح کا جی چلا تھا ہماری طرح مگر
الفت کی دیکھ دیکھ کے افتاد رہ گیا

ہیں تیرے دل میں سب کے ٹھکانے برے بھلے
میں خانماں خراب ہی برباد رہ گیا

وہ دن گئے کہ تھی مرے سینے میں کچھ خراش
اب دل کہاں ہے دل کا نشاں یاد رہ گیا

صورت کو تیری دیکھ کے کھنچتی ہے جان خلق
دل اپنا تھام تھام کے بہزاد رہ گیا

اے داغؔ دل ہی دل میں گھلے ضبط عشق سے
افسوس شوق نالہ و فریاد رہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse