باغ میں جگنو چمکتے ہیں جو پیارے رات کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
باغ میں جگنو چمکتے ہیں جو پیارے رات کو
by رشید لکھنوی

باغ میں جگنو چمکتے ہیں جو پیارے رات کو
یاد آتے ہیں ان آنکھوں کے اشارے رات کو

شبہ ہے تم کو کہاں ٹوٹے ہیں تارے رات کو
دم بہ دم آنسو ٹپکتے تھے ہمارے رات کو

ٹوٹے تارے سیکڑوں یوں قدسیوں کے دل ہلے
درد سے جس وقت ہم تم کو پکارے رات کو

پوری گردش آسماں نے شام سے کی تا سحر
آج میں نے گن لیے سارے ستارے رات کو

دھوپ نکلی دن کو چہرے سے ہٹا لی جب نقاب
چاندنی پھیلی جہاں کپڑے اتارے رات کو

صاف کروٹ لینے کی آواز آئی کان میں
سوئے دل جب جھک کے ہم تم کو پکارے رات کو

ذروں کو شاباش دن کو ہیں حضور مہر رخ
دیکھیے چھپ کے نکلتے ہیں ستارے رات کو

ہجر کی مدت نہ ہوگی ختم ثابت ہو چکا
دن کو ذرے گن چکا میں اور تارے رات کو

الفت رخ میں ہے وحشت یاد گیسو میں بکا
دن کو صحرا میں ہیں دریا کے کنارے رات کو

آ گئی صبح قیامت اور میں سویا نہیں
پھر نہ آئی نیند تم جب سے سدھارے رات کو

دل جگر لینے پھر آئے صبح کو کہتے ہوئے
رہ گئے بستر پہ دو موتی ہمارے رات کو

منہ پہ زلف زر فشاں ہے مجھ سے ہے رونے کا حکم
چاندنی دیکھی ہے دریا کے کنارے رات کو

آپ آرائش بھی کرتے ہیں موافق وقت کے
دن کو منہ دھویا گیا گیسو سنوارے رات کو

ڈھونڈھتے پھرتے ہیں دل کو صبح سے ہر سو رشیدؔ
دل ربا تھا ایک پہلو میں ہمارے رات کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse