باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے
by شیخ ظہور الدین حاتم

باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے
غنچۂ دل مرا بکستا ہے

ارے بے مہر مجھ کو روتا چھوڑ
کہاں جاتا ہے مینہ برستا ہے

تیرے ماروں ہوؤں کی صورت دیکھ
میرا مرنے کو جی ترستا ہے

تیری تروار سے کوئی نہ بچا
اب کمر کس اوپر تو کستا ہے

کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے
کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے

میری فریاد کوئی نہیں سنتا
کوئی اس شہر میں بھی بستا ہے

حاتمؔ اس زلف کی طرف مت دیکھ
جان کر کیوں بلا میں پھنستا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse