Jump to content

باغ آرزو

From Wikisource
باغ آرزو
by عبد الحلیم شرر
319468باغ آرزوعبد الحلیم شرر

آہا ہا ہا ہا! سامنے کیسے پھول کھلے ہوئے ہیں! جوانانِ چمن کیسا خوبصورت زیور پہنے ہیں کہ نظر ادھر جاتے ہی فریفتہ ہو جاتی ہے۔ درختوں کا ہراہرا رنگ آنکھوں میں کھبا جاتا ہے۔ کس قیامت کی بہار ہے! اس نظر فریب منظر نے دل میں کچھ ایسا جوش پیدا کرکے اپنی طرف کھینچا کہ بجھی ہوئی طبیعت میں ایک ولولہ پیدا ہو گیا، حوصلے بڑھ گئے اور امیدوں نے پہلو میں گدگدا کر آگے بڑھا دیا۔ حسرت نصیب زندگی میں جن ہاتھوں کو شب و روز ملا کیے تھے، وہ اس شوق سے پھیلے کہ دو پھول توڑ لیں مگر ناکامی ہوئی اور دو قدم اور بڑھے۔ اب یقین تھا کہ پھول بالکل پاس ہی ہیں مگر ہاتھ پھر خالی پڑا۔ اور آگے بڑھے مگر پھر بھی حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔

یوں ہی برابر بڑھ بڑھ کر ہاتھ مارتے چلے گئے اور ناکام ہوتے رہے۔ حوصلہ پست ہونے لگا اور ارادہ کیا کہ اس خیال خام سے باز آئیں۔ حسرت بھری نگاہ سے ان تروتازہ اور خوشنما پھولوں کو دیکھا جن سے ہاتھ اٹھایا چاہتے تھے لیکن اس مرتبہ وہ پھول اس قدر نزدیک اور ایسے شگفتہ معلوم ہوئے کہ امیدیں از سر نو زندہ ہوگئیں اور حوصلے نے گویا سنبھالا لیا۔ دل خود بخود کہنے لگا او ہو! اب تو یہ پھول پاس ہے۔ تروتازگی اب کچھ اور ترقی پر معلوم ہوتی ہے۔ اب تو اس کے رنگ بھی پہلے سے زیادہ نظر فریب ہیں۔ تھکے ہوئے پاؤں سے پھر کام لیا مگر اب بھی یہی ہوا کہ دھوکا ہوا تھا۔ ہمت ہار کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے، ’’ہائے! کیا اچھے پھول ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر دیکھا تو پھول اور زیادہ نزدیک معلوم ہوئے۔ بہ ہزار دشواری اٹھے اور گرتے پڑتے چلے مگر مایوسیوں نے اس دفعہ بھی ناکام ہی رکھا۔ ’’باغ آرزو‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔

یہ تو کسی کو نہیں معلوم کہ دنیا میں ہے یا نہیں مگر اتنا جانتے ہیں، سب لوگوں کے پاس ہی نظر آتا ہے۔ دل بستگیاں ہیں کہ جلوہ گاہ حسن کی طرح لگا لگا کے آگے ہی بڑھائے لیے چلی جاتی ہیں اور کچھ ایک ہی قسم کی نہیں، ہر طرح کے لطف اور ہر مذاق کی دلچسپیاں ہیں۔ دیکھو! وہ عورت اپنا بیمار بچہ گود میں لیے کھڑی ہے۔ کیسی مایوس ہو ہو کے چاروں طرف دیکھتی ہے مگر کوئی درد مند نظر نہیں آتا۔ آنسو بھری آنکھوں سے کارخانہ قدرت کے مٹے مٹے نمونے دیکھ رہی ہے۔ دنیا بھر کی خوشیاں اور شگفتہ دلیاں اسے دھندلی دکھائی دیتی ہیں۔ ان سب چیزوں کو ایک حسرت آلود نگاہ سے دیکھ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور آنکھیں جھکا لیں۔ ہجوم یاس سے گھبرائی ہوئی نگاہ کہیں ایک حال پر ٹھہر سکتی ہے۔ اس نے پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ اتفاقاً ’’باغ آرزو‘‘ پر نظر جا پڑی۔ وہ دیکھتی ہے کہ اس پر فضا باغ کی کیاریوں پر ایک مسیحا نفس حکیم کھڑا ہوا ہے اور دلفریب اشاروں سے اسے بلا رہا ہے کہ یہاں آ! میں تیرے بچے کا علاج کر دوں گا۔ حکیموں کی تشخیص اور علاج کاحال تجربے سے معلوم ہوتا ہے مگر اس کی صورت دیکھتے ہی تسکین سی ہو جاتی ہے۔

غریب عورت اپنے لڑکے کو لیے خوشی خوشی ادھر کو چلی۔ کامیابی کے شوق میں خدا جانے کس قدر آگے بڑھ گئی لیکن نگاہ اٹھاکے دیکھا تو اسی قدر فاصلہ نظر آیا جس قدر پہلے تھا۔ عجب حسرت کی آواز سے پکار کر کہنے لگی، ’’کیا میری قسمت میں نہیں لکھا ہے کہ آپ تک پہنچوں؟‘‘ اس طرف سے جواب ملا، ’’گھبرا نہیں۔ اب پہنچا ہی چاہتی ہے۔‘‘ عورت اور آگے بڑھی۔ آرزوؤں کے جذبات پھر بہت دور تک بڑھا لے گئے۔ دیکھا تو اب بھی حکیم صاحب اسی قدر فاصلے پر ہیں۔ اب عورت کے پاؤں میں بھی طاقت نہیں رہی۔ سانس پھول گئی اور پاؤں من بھر کے ہو گئے۔ اس بے نصیبی پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مامتا کا جوش! اس حالت پر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری۔ روتی ہوئی چلی۔ اب غور کر کے وہ بھی دیکھتی جاتی ہے کہ کہیں حکیم صاحب تو پیچھے نہیں ہٹتے جاتے۔ ایک ہچکی کی آواز اس کے کان میں آئی۔ سہم کر اس نے اپنی گود کی طرف دیکھا۔ لڑکے کی حالت غیر تھی اور وہ دم توڑ رہا تھا۔ گھبرا کے بیٹھ گئی۔ مایوسی کی صورت سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا کہ ہائے میں لڑکے کو وہاں تک نہیں پہنچا سکتی۔ اس طرف حکیم صاحب نے پکار کر کہا، ’’بیٹھ کیوں گئی؟ میں پاس ہی تو ہوں۔ آ میرے پاس چلی آ۔ میرے پاس سب طرح کی دوائیں ہیں۔ اگر تو مانگے تو موت کی بھی دوا دے سکتا ہوں۔‘‘

وہ روکے کہنے لگی، ’’سب کچھ ہے مگر کیا کروں۔ اب آپ تک میں پہنچ ہی نہیں سکتی۔‘‘ اتنے میں بچے کا دم نکل گیا۔ ناامیدی کے ہجوم میں معلوم تو کچھ نہ ہوا مگر عورت اس مصیبت میں جس قدر آگے بڑھتی تھی، خدا جانے کس نے اس سے بھی زیادہ پیچھے پھینک دیا۔ ’’باغ آرزو‘‘ اور ہمارے بیچ میں جو مختصر سا میدان نظر آتا ہے، وہ ظاہر میں تو بہت چھوٹا اور بالکل صاف صاف ہے مگر اصل میں بڑا الجھاؤ، لمبا چوڑا اور انتہا سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ ا س کے الجھاؤ کچھ انہیں لوگوں کو خوب معلوم ہیں، جنہو ں نے اس کا سفر کر کے اپنی قسمت آزمائی کی ہے۔ ہماری زندگی کا دامن میدان آرزو کے دامن سے بندھا ہوا ہے۔ زندگی کی دشواریاں اور عرصہ ہستی کی دقتیں ہر گز اس قابل نہ تھیں کہ انسان کو جھیل سکتا، مگر آرزو کی وہ پیاری پیاری صورتیں جو سامنے باغ آرزو میں نظر آیا کرتی ہیں، ان سے کچھ ایسی دل بستگی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ دشوار گزار منزلیں عجب دل بستگی کے ساتھ ایک نرالی دھن اور محویت میں گزر جاتی ہیں۔ زندگی کے ایک مختصر حصہ کی دشواریاں بھی ایسی ہیں کہ ان کو یاد کر کے رونے کے لئے بھی جگ چاہئیں۔ دنیا میں ہمیں اچھی طرح ان کے یاد کرنے کی نوبت تو آتی نہیں ہے، جھیلنا کیسا؟

یہ باغ آرزو ہی کی دل فریبیاں ہیں کہ گزشتہ رنج و الم ہمیں یاد کرنے سے بھی نہیں یاد آتے۔ اے ہم صفیر ان ہستی! دیکھو۔ باغ آرزو کی بہار زندگی کی نشیب و فراز میں تمہیں کس طرح اپنی طرف متوجہ رکھتی ہیں؟ بہت کم ایسے ہوں گے جنہیں باغ آرزو کی دل فریبیاں یاد ہوں۔ اسی لیے ہم یاد دلاتے ہیں۔ کنج عدم کی بے تعلقی او ربے غرضی نے ایسی سادگی اور بھولا پن پیدا کر دیا تھا کہ نہ کوئی آرزو تھی، نہ کسی کا ارمان تھا۔ ایسی بے غرضی کی حالت میں خدا جانے کیا سبب ہوا کہ نہ رہا گیا اور عرصہ ہستی کو روانہ ہوئے۔ اس وقت تک ہمیں تو کسی کی آرزو نہ تھی مگر ہم البتہ اوروں کے ارمان بن بن کر آئے تھے۔ غالباً اوروں کے جذبات اور دنیا والوں کی کشش ہی نے ہمیں اس فکر مندی کے مقام میں کھینچ بلایا۔ یہ ایسا مقام تھا کہ یہاں کی کوئی چیز ہمارے مزاج کے موافق نہ تھی اور نہ آب و ہوا مناسب تھی اور نہ یہاں کے اخلاق و عادات سے مانوس تھے۔ دل بے آرزو کو وہ بے فکری کی حالت بہت ہی پسند تھی مگر یہ پہلا موقع تھا کہ ہمارے دل میں کچھ تمنائیں پیدا ہوئیں۔ ہائے مرتے دم تک اس بے فکری کے زمانہ کو یاد کر کر کے رویا کرتے ہیں۔

وہ اگلے سچے سرور اور اطمینان کی حالت جو کنج عدم میں نصیب تھی، وہاں تک تو ہمارے خیال کی نظر بھی نہیں جاتی۔ ہاں بچپن کے دنوں کو یاد کر کے رو لیا کرتے ہیں۔ جب ہم میں فکر مندی کی صلاحیت آ چکی تھی، بچے تو تھے ہی۔ امید ایک دلفریب مربی کی صورت میں نظر آئی اور انگلی پکڑ کے ان چیزوں کی سیر کرانے لگی جن کی تمنا میں ہمیں جان دینی تھی۔ عمر کے میدان میں جوں جوں آگے بڑھتے تھے، وہ وہ آرزوئیں پختگی کے ساتھ دل میں جگہ پکڑتی گئیں۔ جوانی کا زمانہ یاد آیا اور دل میں جنون انگیز جذبات ہجوم کرنے لگے۔ ان دنوں ہوش تو کسے تھا؟ مگر اتنا کہیں گے، چونکہ حوصلے بڑھے ہوئے تھے اور پاؤں میں نیا نیا جوش اور پورا شوق بھرا ہوا تھا، لہٰذا باغ آرزو میں جو کوئی نظر آ جاتا، اگر ہم سے بھاگتا تو ہم بھی رگید ڈالتے تھے۔ باغ امید اس وقت ایسی بہار میں معلوم ہوا کہ دل آرزو پسند گھبرا اٹھا۔ جو نظر پڑی دلفریب تھی، جو پھول دکھائی دیا نظر فریب، جس صورت کی طرف نگاہ گئی ہو شربا تھی۔

ایک دل کدھر کدھر متوجہ ہوتا اور کس کس کا آرزومند بنتا۔ اس پھول کی خوبیوں کو دیکھ رہے تھے کہ دوسرا نظر پڑا۔ اس خوشنمائی کو ابھی جی بھر کے دیکھ بھی نہیں چکے تھے کہ تیسرے پر نظر جا پڑی اور اس شوق سے گئی کہ وہیں کی ہو رہی۔ ہائے افسوس! بوالہوسی باغ آرزو کی مصنوعی بہار دکھا دکھا کے یوں بڑھائے لیے چلی گئی اور ہم اس میدان ہوس میں چلتے چلتے ایسے تھکے کہ سارے حوصلے پست ہو گئے۔ تھوڑی ہی سیر کرنے پائے ہوں گے، طاقت نے جواب دیا اور بڑھاپا نامرادیوں کی بھیانک تصویروں کا البم ہاتھ میں لیے آموجود ہوا۔ یہ عجب وقت تھا کہ کبھی تو باغ آرزو کے سدا بہار پھولوں پر نظر پڑتی تھی اور مردہ امیدیں جی اٹھتی تھیں اور کبھی وہ مایوسیاں نگاہ کے سامنے ہو جاتی تھیں جن کی تصویریں بڑھاپا اپنے البم میں دکھا رہا تھا۔ زندگی اور موت کی کشاکش میں پڑ گئے۔ حیات اپنی طرف کھینچتی تھی اور موت اپنی طرف۔

اے ہم صفیر ان ہستی! ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ باغ آرزو ہے تو مزے کی چیز مگر فقط جو اس کے پیچھے کھڑا رہا، وہ ایسا خراب ہوا کہ کہیں کا نہ رہا۔ یہ ایک بھول بھلیاں ہے کہ تم نے اندر قدم رکھا اور پلٹنا دشوار ہو گیا۔ اس باغ میں تم جہاں تک بڑھتے چلے جاؤگے، تمہیں بڑھاتا لیے چلا جائےگا۔ اس کے پھولوں میں یہ قیامت کا جادو بھرا ہے کہ جب تک درختوں میں لگے ہیں، اسی وقت تک لطف دکھاتے ہیں۔ ادھر تم نے کوئی پھول توڑا، اول تو تمہارا ہاتھ ہی وہاں تک مشکل سے پہنچےگا اور وہ لطف تشریف لے گیا۔ یہ خوش نمائیاں اس وقت تک ہیں جب تک تم دور سے دیکھ رہے ہو۔ ان طالب علموں سے دریافت کرو جنہوں نے تحصیل علم کے زمانے میں زندگی کی کچھ قدر نہ کی تھی کہ جن ہوسوں نے یہ محنت اور مشقت کرائی تھی۔ ان میں سے کتنے ہیں جو اب یونیورسٹی کے بڑے بڑے سارٹیفکٹ مل چکنے کے بعد انہیں حاصل ہوئیں؟ ہائے! تم جہاں تک غور کروگے، یہی معلوم ہوگا کہ آرزو محض ایک دل میں رہنے والی چیز ہے۔ یہ دل سے کبھی نہ نکلےگی اور جو نکلے، وہ آرزو نہیں۔ آرزو اسی کا نام ہے۔

تم کو کچھ کرنا ہے اور اس سے کچھ فائدہ اٹھانا ہے تو باغ آرزو میں زیادہ بڑھے نہ چلے جاؤ۔ جہاں رہو، وہیں رہو۔ سامنے کی دل فریبیوں کو دور ہی سے دیکھو۔ ان کے پاس جانے کا قصد نہ کرو۔ جو تمہیں کرنا ہے، وہ کرو۔ جس غرض کے پورا کرنے کے لئے دنیا میں آئے ہو اس کی تکمیل کی فکر کرو۔ ہاں جس طرح دنیا کے اور باغوں میں تفریح کے لئے نکل جاتے ہو، اسی طرح اس باغ کی بھی دو گھڑی سیر کر لیا کرو۔ یہ نہیں کہ اسی کے ہو رہے۔ اس خام خیالی میں پڑوگے تو یونہی بیکار زندگی گزارتے گزارتے ایک دن ایسا اضطراب ہوگا کہ پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جائےگی اور تم بڑی افسردگی اور بے بسی کے ساتھ قبر میں سلا دیے جاؤگے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.