باشندے حقیقت میں ہیں ہم ملک بقا کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
باشندے حقیقت میں ہیں ہم ملک بقا کے
by مردان علی خاں رانا

باشندے حقیقت میں ہیں ہم ملک بقا کے
کچھ روز سے میہمان ہیں اس دار فنا کے

دل خوں ہو شب وصل بھی حسرت میں نہ کیوں کر
دیکھیں نہ وہ خلوت میں بھی جب آنکھ اٹھا کے

فرمائیے ہم سے تھی یہی شرط محبت
خوب آپ نے رسوا کیا غیروں میں بلا کے

کوچے میں نہ آئے کوئی میں جان گیا ہوں
فرماتے ہو مجھ سے یہ رقیبوں کو سنا کے

دل ہاتھ سے کھو جاتا ہے کس طور سے زاہد
تو آپ ذرا دیکھ لے اس کوچے میں جا کے

خاک در جاناں ہے لباس تن عریاں
عاشق ترے محتاج نہیں اور قبا کے

ہم سر کے بل آئیں گے جو بلواؤ گے صاحب
گر ہو نہ یقیں دیکھ لو تم چاہو بلا کے

ہو سایۂ دیوار تمہارا جو میسر
پھر کیا کریں فرمائیے سائے کو ہما کے

دل کھول کے کر لیجئے اے حضرت دل سیر
ہم پھر کے نہ پھر آئیں گے اس بزم سے جا کے

تن خاک میں مل جائے گا اک روز ہمارا
جی تن سے نکل جائے گا مانند ہوا کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse