بازار دہر میں تری منزل کہاں نہ تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بازار دہر میں تری منزل کہاں نہ تھی
by حیدر علی آتش

بازار دہر میں تری منزل کہاں نہ تھی
یوسف نہ جس میں ہو کوئی ایسی دکاں نہ تھی

زردی نے میرے رنگ کی مجھ کو رلا دیا
ہنسوائے جو کسی کو یہ وہ زعفراں نہ تھی

ظاہر سے خوب رویوں کا باطن خلاف تھا
شیریں لبوں کی طرح سے ان کی زباں نہ تھی

منزل ہی دور ہے جو یہ پہنچی نہیں ہنوز
دم لینے والی راہ میں عمر رواں نہ تھی

دکھلائی سیر آنکھوں کو بام مراد کی
ایسی کوئی کمند کوئی نردباں نہ تھی

قوس قزح سے ہم نے بھی تشبیہ دی اسے
چلہ نہ ہونے سے جو وہ ابرو کماں نہ تھی

آگاہ جذب عشق زلیخا سے تھا نہ حسن
یوسف کو چاہ میں خبر کارواں نہ تھی

یاد آ گئی جو سلک گہر تیرے گوش کی
سوہان روح تھی مجھے شب کہکشاں نہ تھی

رہ جانا پیچھے جسم کا جاں سے عجب نہیں
کس کارواں کی گرد پس کارواں نہ تھی

نا فہمی کی دلیل ہے یہ سجدہ سے آیا
ابلیس کو حقیقت آدم عیاں نہ تھی

عاشق کے سر کے ساتھ ہے سودائے کوئے یار
مومن نہ تھا وہ جس کو ہوائے جناں نہ تھی

بانگ جرس سے آگے ہر اک کا قدم رہا
گرد اپنے کارواں کے پس کارواں نہ تھی

افسوس کیا جوانیٔ رفتہ کا کیجیے
وہ کون سی بہار تھی جس کو خزاں نہ تھی

نالوں سے ایک دن نہ کئے گرم گوش یار
آتشؔ مگر تمہارے دہن میں زباں نہ تھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse