بارہا دل کو میں سمجھا کے کہا کیا کیا کچھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بارہا دل کو میں سمجھا کے کہا کیا کیا کچھ
by مرزا محمد رفیع سودا

بارہا دل کو میں سمجھا کے کہا کیا کیا کچھ
نہ سنا اور کھویا مجھ سے مرا کیا کیا کچھ

عزت و آبرو و حرمت و دین و ایماں
روؤں کس کس کو میں یارو کہ گیا کیا کیا کچھ

صبر و آرام کہوں یا کہ میں اب ہوش و حواس
ہو گیا اس کی جدائی میں جدا کیا کیا کچھ

عشق کس ذات کا عقرب ہے کہ لگتے ہی نیش
دل کے ساتھ آنکھوں سے پانی ہو بہا کیا کیا کچھ

سادہ روئی نے تو کھویا دل و دیں سے دیکھیں
خط کے آنے میں ہے قسمت کا لکھا کیا کیا کچھ

دخل کیا راہ محبت میں نکو نامی کو
آیا اس کوچے میں جو ان نے سنا کیا کیا کچھ

والہ و شیفتہ و زار و حزین و مجنوں
اپنے عاشق کو کل اس نے نہ کہا کیا کیا کچھ

گریۂ شیشہ کبھی تھا تو کبھی خندۂ جام
ساقی اس دور میں تیرے نہ ہوا کیا کیا کچھ

غرہ مت ہو جو زمانے سے تری بن آئی
تھا وہ کیا کیا کہ نہ بگڑا نہ بنا کیا کیا کچھ

شادی آنے کی نہ کر یار نہ جانے کا غم
آیا کیا کیا نہ کچھ اس جا نہ گیا کیا کیا کچھ

سینہ قانون و غنا نالہ و دل ہے مضراب
نکلے ہے ساز محبت سے صدا کیا کیا کچھ

دوستو حق میں ترقی و تنزل اپنے
کیا کہیں ہم کو زمانے سے ہوا کیا کیا کچھ

ضعف و نا طاقتی و سستی و اعضا شکنی
ایک گھنٹے میں جوانی کے بڑھا کیا کیا کچھ

سیر کی قدرت خالق کی بتاں میں سوداؔ
مشت بھر خاک میں جلوہ ہے بھلا کیا کیا کچھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse