Jump to content

بارش کا پہلا قطرہ

From Wikisource
بارش کا پہلا قطرہ
by اسماعیل میرٹھی
297602بارش کا پہلا قطرہاسماعیل میرٹھی

گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہو گا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھاؤں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیا ناس
آتی ہے برسنے سے مجھے شرم
مٹی پتھر تمام ہیں گرم
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی
اک قطرہ تھا کہ بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت
بولا للکار کر کہ آؤ
میرے پیچھے قدم بڑھاؤ
کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں کچھ جان
یارو، یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کرو گے جانفشانی
میدان پہ پھیر دو گے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آؤ لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
’’ دشوار ہے جی پہ کھیل جانا ‘‘
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت
دیکھی جرات جو اس سخی کی
دوچار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمین پہ ٹپکا
آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت
جرات قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اے صاحبو قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو
قطروں ہی سے ہو گی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.