بادۂ وحشت اثر سے مست ویرانے میں تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بادۂ وحشت اثر سے مست ویرانے میں تھا
by پیارے لال رونق دہلوی

بادۂ وحشت اثر سے مست ویرانے میں تھا
ایک عالم بے خودی کا تیرے دیوانے میں تھا

جلوہ فرماتا وہ کعبے میں نہ بت خانے میں تھا
ڈھونڈھتا تھا جس کو میں وہ دل کے کاشانے میں تھا

حسرتیں تھیں رقص میں ساز طرب تھی آہ دل
عیش دنیا بھر کا میرے ایک غم خانے میں تھا

پوچھتا کیا ہے حقیقت اس کی مجھ سے محتسب
کیا بتاؤں میں تجھے کیا میرے پیمانے میں تھا

جوش وحشت میں تھی اس کی جستجو دونوں طرف
اک قدم میرا تھا گھر میں ایک ویرانے میں تھا

ہر گھڑی تھی جس کے جلوہ کی نگاہوں کو تلاش
نور اس کا آنکھ میں وہ دل کے کاشانے میں تھا

سرخ ڈورے آ گئے پیتے ہی ساقی آنکھ میں
یہ مئے گل رنگ تھی یا خون پیمانے میں تھا

لا سکا اے شمع دم بھر بھی نہ تاب سوز عشق
خاک ہونے کے سوا کیا خاک پروانے میں تھا

اور کیا کعبے میں ملتا سنگ اسود کے سوا
ڈھونڈھتا تھا جس کو تو زاہد وہ بت خانے میں تھا

نغمۂ حق کی صدا ہر دم کئے دیتی تھی مست
کس مزے کا اک ترنم دل کے پیمانے میں تھا

میری راحت کا ذریعہ تھیں مری آزادیاں
وہ قدم تھا عیش خانے میں جو ویرانے میں تھا

کوند کر گرتی تھیں دل پر ہر طرف سے بجلیاں
اک نیا انداز ان کے تیغ چمکانے میں تھا

چشم حق بیں کے لئے ہیں ایک ہی دیر و حرم
صاف کعبے میں نظر آیا جو بت خانے میں تھا

اب وہ رنگ بادۂ الفت الٰہی کیا ہوا
جوشش حب وطن جو دل کے پیمانے میں تھا

کیا کہوں کس شے نے رونقؔ کر دیا مست الست
تھا وہ اک رنگ مئے عرفاں جو پیمانے میں تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse