بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
by شاہ نصیر

بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
کیفیت کے ہم نے جو دیکھا دو ہیں مہینے ساون بھادوں

دیکھے نہ ہوں گے آج تلک یہ ایسے کسی نے ساون بھادوں
چشم کی دولت ہم کو رہے ہیں بارہ مہینے ساون بھادوں

چھوٹے ہیں فوارۂ مژگاں روز و شب ان آنکھوں سے
یوں نہ برستے دیکھے ہوں گے مل کے کسی نے ساون بھادوں

ٹانکنے کو پھرتی ہے بجلی اس میں گوٹ تمامی کی
دامن ابر کے ٹکڑوں کو جب لگتے ہیں سینے ساون بھادوں

بھولے دم کی آمد و شد ہم یاد کر اس جھولے کی پینگیں
سوجھے ہے بے یار نہ دیں گے آہ یہ جینے ساون بھادوں

کیونکہ نہ یہ در ہائے تگرگ اے بادہ پرستو! برسائیں
کان گہر چھٹ زر کے نہیں رکھتے گنجینے ساون بھادوں

کان جواہر کیونکہ نہ سمجھے کھیت کو دہقاں اولوں سے
برساتے ہیں موتیوں میں ہیروں کے نگینے ساون بھادوں

ابر سیہ میں دیکھی تھی بگلوں کی قطار اس شکل سے ہم نے
یاد دلائے پھر کے ترے دندان و مسی نے ساون بھادوں

کھیت رکھے گی آخر اک دن فرقت دہقاں پسر کی نصیرؔ
کرتے ہیں جوں گندم شق مغلوں کے سینے ساون بھادوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse