بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
by برجموہن دتاتریہ کیفی

بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
دھوئیں توبہ کے اڑانے کو بہار آئی ہے

تا کہ انگور ہرے ہوں مرے زخم دل کے
دھانی انگیا مرے دل دار نے رنگوائی ہے

تیرہ بختی سے ہوئی مجھ کو یہ خفت حاصل
دل وحشت میں سویدا کی جگہ پائی ہے

یہ چلن ہیں تو تمہیں حشر سے دیں گے تشبیہ
لوگ سفاک کہیں گے بڑی رسوائی ہے

موت کو زیست سمجھتا ہوں میں بیتابی سے
تری فرقت نے یہ حالت مری پہنچائی ہے

صبر ہجراں میں کرے کیفیؔٔ محزوں کب تک
آخر اے دوست کوئی حد شکیبائی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse