بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
by محمد ابراہیم ذوق

بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایماں یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر

دل سینے میں کہاں ہے نہ تو دیکھ بھال کر
اے آہ کہہ دے تیر کا نامہ نکال کر

اترے گا ایک جام بھی پورا نہ چاک سے
خاک دل شکستہ نہ صرف کلال کر

لے کر بتوں نے جان جب ایماں پہ ڈالا ہاتھ
دل کیا کنارے ہو گیا سب کو سنبھال کر

تصویر ان کی حضرت دل کھینچ لیجے گر
رکھ دیں گے ہم بھی پاؤں پہ آنکھیں نکال کر

قاتل ہے کس مزے سے نمک پاش زخم دل
بسمل ذرا تڑپ کے نمک تو حلال کر

دل کو رفیق عشق میں اپنا سمجھ نہ ذوقؔ
ٹل جائے گا یہ اپنی بلا تجھ پہ ٹال کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse