بات میری کبھی سنی ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بات میری کبھی سنی ہی نہیں
by داغ دہلوی

بات میری کبھی سنی ہی نہیں
جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں

دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں

لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں

اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

جان کیا دوں کہ جانتا ہوں میں
تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں

ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے
پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں

ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں
یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں

دل لگی دل لگی نہیں ناصح
تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں

داغؔ کیوں تم کو بے وفا کہتا
وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse